Maktaba Wahhabi

593 - 611
’’بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ حج ہے جس کے دوران میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ حج ہے جو عنداللہ مقبول ہو جائے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے وہ حج مراد ہے، جس میں ریا و شہرت، فحاشی اور لڑائی جھگڑانہ کیا گیا ہو اورکچھ اہلِ علم کاکہنا ہے کہ حجِ مبرور کی علامت یہ ہے کہ اس سے آدمی پہلے کی نسبت بہترہو کر لوٹے اورگناہ کی کوشش نہ کرے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسا حج جس کے بعد انسان دنیا سے بے رغبت اور آخرت کاطلب گار بن جائے، جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ حج مبرور کے مفہوم میں یہ سبھی امور شامل ہیں۔‘‘[1] جنت کی بشارت: حج و عمرے سے حاصل ہونے والی سعادتوں، کامرانیوں اور فضائل وبرکات کا یہ عالم ہے کہ تمام گناہوں کے کفارے کے ساتھ ساتھ جنت کی خوش خبریاں بھی کانوں میں رس گھولتی، دلوں میں ایمان جگاتی اورروح کو بالیدگی و تازگی اور خوشی بخشتی ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرے تک تمام گناہوں کا کفارہ ہے اورحجِ مبرور کا ثواب توجنت ہی ہے۔‘‘[2] مفہومِ استطاعت: حج و عمرے کی فرضیت کے لیے استطاعت اور طاقت و قدرت کا ہونا شرط ہے۔ لہٰذا استطاعت کے مفہوم اور اس کی اقسام کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے، تاکہ اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہو جائے کہ کسی مسلمان پر کب تک حج فرض نہیں ہوتا اور کب اور کن حالات میں فرض ہو جاتا ہے؟ اس سلسلے میں سورت آل عمران (آیت: ۹۷) میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا} ’’لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق (فرض) ہے کہ جو اس کے گھر (بیت اللہ شریف) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، وہ اس کا حج کریں۔‘‘
Flag Counter