Maktaba Wahhabi

594 - 611
1. زادِ راہ اور سواری: اس آیت میں جس طاقت و استطاعت کا ذکر ہوا ہے، اس کے مفہوم کی تعیین کے سلسلے میں قرآن و سنت ہر دو میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ چنانچہ سورت بقرہ (آیت: ۹۷ا) میں ارشادِ الٰہی ہے: { وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی} ’’اور زادِ راہ (سفر خرچ) اپنے ساتھ رکھو، اس لیے کہ اچھا توشہ یہی ہے کہ (بھیک مانگنے سے) بچے رہو۔‘‘ تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کا سببِ نزول بیان کرتے ہوئے ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’اہلِ یمن حج کے لیے نکلتے تو کوئی زادِ راہ ساتھ نہیں لیتے تھے اوراپنے آپ کو کہتے کہ ہم متوکّل ہیں، لیکن جب مکہ مکرمہ پہنچتے تو لوگوں سے بھیک مانگتے تھے۔ اس پر یہ ارشادِ الٰہی نازل ہوا کہ ’’زادِ راہ اپنے ساتھ رکھو، اس لیے کہ اچھا توشہ یہی ہے کہ (بھیک مانگنے سے)بچے رہو۔‘‘[1] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی تفسیر ی قول صحیح بخاری شریف، کتاب الحج، با ب قول اللہ تعالیٰ: {وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی} اورمتعد د دیگر کتبِ حدیث میں بھی مذکور ہے۔[2] یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اس آیتِ مذکورہ میں ’’تقویٰ‘‘ سے اس کا معروف اصطلاحی معنی مراد نہیں بلکہ یہاں اس کا لغوی معنی (بچنا) مراد ہے، جیسا کہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں وضاحت کی ہے۔[3] طاقت کی تعیین اورمفہومِ استطاعت کے سلسلے میں سنن دارقطنی اور مستدرک حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ارشادِ ربانی: {مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا} میں
Flag Counter