Maktaba Wahhabi

606 - 611
کے اہتمام کا ثبوت صحیح احادیث میں موجود ہے۔ جن میں سے ایک میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’سوار لوگ ہمارے پاس سے گزرتے جبکہ ہم احرام باندھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہوتیں۔ جب وہ ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم سر سے کپڑا سِرکا کر چہرے پر ڈال لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو چہرے کھول لیتیں۔‘‘[1] ایسے ہی صحیح بخاری میں تعلیقاً و مختصراً اور بیہقی میں موصولاً و مطولاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ مذکور ہے۔ اس سے بھی جہاں پردے کے اہتمام کا پتا چلتا ہے وہیں نقاب و برقع کی اصل حقیقت کا بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ پردے میںمانع نہیں ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احرام والی عورت چہرے پرکپڑے کو باندھے تو نہیں بلکہ صرف سر کی طرف سے لٹکا دے، پھر صحیح قول کی رو سے بے شک وہ کپڑا اس کے چہرے کو چھوتا رہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔[2] نمازِ احرام: اب احرام کی نیت کرنے اورتلبیہ (( لَبَّیْکَ الَلّٰھُمَّ لَبَّیْکَ )) کہنے کا آغاز کرنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لیں، کیونکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحلیفہ کے مقام پر دو رکعتیں پڑھتے اور اونٹنی پر سوار ہوتے۔ جب وہ سیدھی کھڑی ہوجاتی تومسجد ذو الحلیفہ کے پاس ہی تلبیہ شروع کردیتے تھے ۔ ‘‘[3] اس حدیث کی بنا پر احرام باندھنے اورتلبیہ کہنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کو مستحب قرار دیاگیا ہے اوریہ دو رکعتیں نفلی ہوں گی۔ جمہور علماے مذاہب کا یہی مسلک ہے اوریہ دو رکعتیں مسنون (نفلی وسنت) ہیں، اگر کوئی پڑھ لے تو ثواب و فضیلت ہے اور اگر کسی وجہ سے نہ پڑھ سکے تو کوئی گناہ یا دم نہیں ہے۔[4]
Flag Counter