Maktaba Wahhabi

619 - 611
پڑھیں، کیونکہ معروف حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں یہی مذکور ہے۔ ان دونوں رکعتوں سے فارغ ہوکر اپنے لیے اور اپنے عزیز و اقارب کے لیے دین و دنیا کی بھلائیوں کی دعائیں مانگیں۔ آبِ زم زم: طواف کی دو رکعتوں اور دعائوں سے فارغ ہوکر آپ جی بھر کر آبِ زم زم پئیں اور اپنے سر پر بھی ڈالیں، کیوں کہ یہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’آبِ زمزم ہر مرض و غرض کے لیے مفید ہے۔‘‘[1] صحیح مسلم، مسند احمد اور طیالسی میں ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’یہ مبارک پانی ہے۔ یہ بھوکے کے لیے کھانا ہے اور بیمار کے لیے شفا بخش دوا ہے۔ روے زمین کا سب سے بہتر و افضل پانی آبِ زمزم ہے۔‘‘[2] حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آبِ زمزم کے مشکیزے بھر بھر کر ساتھ لے جاتے تھے اور مریضوں کو پلاتے اور ان پر چھڑکا کرتے تھے۔[3] زم زم میں کفن یا نقدی بھگونا: بعض حُجاجِ کرام بلکہ اکثر لوگ برکت کی غرض سے کفن کے کپڑے تھانوں کے حساب سے بھگو کر لاتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ زم زم میں تر کیے ہوئے کپڑوں میں مُردوں کو کفنانا باعثِ نجات ہے۔ حالانکہ یہ سراسر عبث اور لااصل بات ہے، اگر عقائد و اعمال درست نہیں تو یہ کفن بھی کسی کام نہیں آسکتا۔ نجات کا دارومدار اللہ کی نظرِکرم اور پھر صحتِ عقیدہ و اعمالِ صالحہ پر ہے۔ عبداللہ بن ابی کا واقعہ اس بات کی دلیل ہے۔ صفا و مروہ کے مابین سعی: جب آپ طوافِ بیت اللہ اور نمازِ طواف سے فارغ ہوجائیں تو بابِ صفا کے راستے مسجدِ حرام سے نکلیں، کیونکہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں مذکور حدیث کے مطابق حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter