Maktaba Wahhabi

625 - 611
سوار ی پر بیٹھ کر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر، مغرب و عشا اور فجر کی نمازیں وہیں ادا فرمائیں۔‘‘[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ رات منیٰ میں جا کر گزار نا ہی سنت ہے اور نمازِ ظہر کے لیے وہاں پہنچنا مسنون عمل ہے۔ ہاں اگر کوئی مجبوری ہو تو رات کو بھی منیٰ پہنچنا جائز ہے اور اس پر کوئی فدیہ بھی نہیں۔[2] منیٰ میں نمازِ ظہر و عصر اور عشا قصر کر کے (دوگانہ) پڑھی جائیں۔ اس میں مکی و غیر مکی یامقامی و آفاقی حجاج میں کوئی فرق نہیں۔[3] ۹/ ذو الحج، یومِ عرفہ یا یومِ حج: ۹/ذو الحج کو ’’یومِ عرفہ‘‘ اور ’’یومِ حج‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس دن نمازِ فجر منیٰ میں ادا کرکے کچھ دیر ذکرِ الٰہی میں گزاریں اور جب سورج طلوع ہوجائے تو منیٰ سے عرفات کو تلبیہ اور تکبیریں کہتے ہوئے روانہ ہوجائیں، کیونکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے روانہ ہوئے۔ ‘‘[4] وادیِ عُرنہ میں: زوالِ آفتاب کے بعد وادیِ عُرنہ کے ساتھ ہی آگے وادی نمرہ (عرفات) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے (جہاں آج کل مسجدِ نمرہ بنائی گئی ہے) وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا، پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے اذان کہلوا کر ایک اقامت سے ظہر اور پھر دوسری اقامت سے عصر کی نمازیں قصر و جمع کرکے پڑھیں۔ وقوفِ عرفات: وقوفِ عرفات حج کا ’’رکنِ اعظم‘‘ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ )) [5] ’’میدانِ عرفات میں وقوف کرنے ہی کا نام حج ہے۔‘‘
Flag Counter