خرچہ بھی نہیں دیتے جو میرے بیٹے کے لیے کافی ہو مگر یہ کہ میں اپنے خاوند کے مال سے بغیر بتائے کچھ لے لیا کروں اور اگرمیں ایسا کروں تو مجھ پر کوئی گناہ تو نہ ہوگا؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر مذکور جواب ارشاد فرمایا: یہ پورا قصہ حدیث شریف میں موجود ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
’’عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈر جاؤ۔ اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کی امان سے لیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے ساتھ ان کے ستر کو حلال کیا ہے۔ تمھارا حق ان پر یہ ہے کہ تمھارے بچھونے (گھر میں) پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ہلکی مار مارو۔ اور ان کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ ان کا کھانا، اور پہننا عام دستور کے مطابق تمھارے ذمہ ہے۔‘‘[1]
٭رہائش: بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ خاونداس کے لیے اپنی مالی استطاعت کے مطابق رہائش مہیا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ)[2]
’’تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان عورتوں کو رکھو۔‘‘
٭غیر مالی حقوق:
بیویوں کے درمیان عدل: اگر کسی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کے درمیان عدل و مساوات قائم کرے۔ رات گزارنے، نان و نفقہ دینے اور کپڑے مہیا کرنے میں سب کے درمیان عدل کرے۔
حسن معاشرت :یہ خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس کے ساتھ نرمی اختیار کرےاور ہر وہ طریقہ اختیار کرے جو بیوی کے دل میں اس کی محبت پیدا کرنے اور اس کا دلی میلان حاصل کرنے کا سبب ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
|