Maktaba Wahhabi

128 - 306
کا شرعی بیٹا ہے، وہ اپنے والد کی طرف منسوب ہوگا کیونکہ اس نے شرعی نکاح کے بعد جنم لیا ہے۔ نوٹ٭ : میں مترجم عرض کر رہا ہوں کہ گم شدہ خاوند کی بیوی کے نکاح فسخ ہونے اور انتظار کی مدت میں علماء کا اختلاف ہے۔ اسی طرحاگر وہ گم شدہ شوہر کو مردہ تصور کر کے آگے نکاح کرلیتی ہے اور پھر پہلا خاوند واپس آجاتا ہے تو کیا وہ اس کو اپنے پاس واپس لا سکتا ہے؟اس میں بھی اختلاف ہے۔احناف کے نزدیک مدت انتظار90یا75سال ہے جبکہ امام مالک کے نزدیک چار سال ہے اور یہی صحیح ہے۔ ان کی دلیل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ ہے۔ اور پہلا خاوند واپس آجانے کی صورت میں بعض علماء کے نزدیک وہ دوسرے کے پاس ہی رہے گی۔‘‘[1] سفر پر روانگی اور واپسی پر خاوند کا سامنا نہ کرنا کیسا ہے؟ سوال۔ محترم شیخ صاحب !بہت سی بیویاں ایسی ہیں کہ اگر ان کے خاوند سفر پر جانے لگیں یا سفر سے واپس آئیں تو وہ ان کے سامنے نہیں آتیں اور نہ ہی ان کو خوش آمد ید کہتی ہیں۔ کیا شریعت نے بیوی کو اس موقع پر خاوند کے سامنے آنے اور اسے ’’اللہ حافظ’‘یا خوش آمدید کہنے سے منع کر رکھا ہے؟ جواب۔ جو صورتحال آپ نے سوال میں ذکر کی ہے، شریعت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔اگر اس کو دینی مسئلہ سمجھ کر کیا جاتا ہے تو یہ بدعت ہے جس کو ترک کرنا واجب ہے۔اتنا ضرورہے کہ اگر کوئی آدمی سفر پر گیا ہو یا پھر اپنی اہلیہ سے کچھ مدت کے لیے دور رہا ہو تو اچانک گھرنہ آئے بلکہ اپنے آنے کی اطلاع کرے تاکہ اس کی بیوی اس کے لیے اپنے آپ کو تیار یعنی بناؤ سنگھار کر سکے۔یہ حکم حسن معاشرت اور اسلام کے سنہری اصولوں کے پیش نظر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب کوئی شخص لمبی مدت گھر سے غائب ہو تو اچانک رات کو اپنا دروازہ نہ کھٹکھٹائے۔‘‘[2]
Flag Counter