Maktaba Wahhabi

129 - 306
اور فرمایا: ’’اچانک رات کو گھرنہ آؤ تاکہ(بیوی ) صفائی ستھرائی اور بناؤ سنگھار کر سکے۔‘‘[1] یہ اس لیے کہ اچانک گھر آجانے سے بیوی کی عدم تیاری وغیرہ اسے ناپسند ہو سکتی ہے۔ یا کوئی ایسی بات ہو سکتی ہے جو اسے ناپسند ہو۔ اسے چاہیے کہ آنے سے پہلے خط یا ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے اپنے گھر والوں کو اطلاع دے۔ یہ حکم اسلام نے اس لیے دیا ہے کہ بیوی اچھے طریقے سے اپنے خاوند کا استقبال کر سکے اور اس کو پوری گرمجوشی کے ساتھ خوش آمد ید کہہ سکے۔اس لیے سوال میں مذکور بعض بیویوں کا عمل خلاف اسلام ہے۔ خاوند کی اجازت کے بغیر خرچہ لینا سوال۔محترم شیخ صاحب! یہ بتائیے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو جائز خرچہ نہ دے اور وہ تنگ ہو جائے تو کیا وہ اپنے اور بچوں کے لیے خاوند کے مال سے کچھ خرچہ لے سکتی ہے اگرچہ خاوند کو علم نہ ہو یا ایسا کرنا چوری تصور ہوگا؟ جواب۔خاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کا ایسا خرچہ روکے جو اس پر واجب ہے۔ بعض خاوند ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کی جائز ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھتے اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ اس حالت میں یعنی اگر خاوند جان بوجھ کر اپنی بیوی کا حق روکتا ہے، حالانکہ اس کے مالی حالات اس کی اجازت دیتے ہیں تو بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے حاصل کرے، اگرچہ خاوند کو علم نہ ہو۔ جب ہنده بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس کا خاوند ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کنجوسی سے کام لیتا ہے، وہ اپنے مال سے مجھے اتنا بھی نہیں دیا جو میرے اور میرے بچے کی گزر بسر کے لیے کافی ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’اچھے طریقے سے اس کے مال سے اتنا لے لو جو تجھے اور تیرے بچے کی ضرورت کے لیے کافی ہو۔‘‘[2]
Flag Counter