Maktaba Wahhabi

169 - 306
عزل کا ثبوت ملتا ہے،مگر اس میں بچہ کی پیدائش کے مواقع موجود ہوتے ہیں جبکہ مانع حمل ادویات کے استعمال سے حمل ٹھرنے کا امکان باقی نہیں رہتا اور ان ادویات کااستعمال عورت کی صحت کے لیے ضرراور نقصان کا باعث ہے،اس کے کئی ثبوت موجود ہیں۔یہ صرف اورصرف مغرب کی تقلید اور یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش ہے،وہ اس امت کانقصان چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہو۔یہ بات ہر ذی شعور جانتاہے کہ کثرت تعداد دشمن کو ہیبت زدہ کرتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شرعی مجبوری ہوتو بچے کی پیدائش میں وقفہ کیا جاسکتا ہے، بشرط یہ کہ عورت کی صحت کے لیے نقصان کاباعث نہ ہو اور حمل کی صلاحیت باقی رہنے کے امکانات موجود رہیں،مثلاً کوئی مستند ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ یہ حمل عورت کی صحت کے لیے زبردست نقصان کا باعث ہوگا وغیرہ۔ (محمد بن صالح العثیمین) مانع حمل ادویات کا استعمال جائز یا ناجائز؟ سوال۔میں اور میری بیوی مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کے بارے میں لڑتے رہتے ہیں۔آپ بتائیں کہ کیا مانع حمل ادویات کا استعمال جائز ہے یاناجائز ہے؟اور کیا نسل کشی کے لیے کوئی صریح دلیل موجود ہے یاپھر ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد اور نسل میں جس قدر ممکن ہو،اضافہ کریں اور منصوبہ بندی والوں کے شیطانی نعروں پر غور نہ کریں۔یہ بات کسی عالم، مفتی یا فقیہ کی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِگرامی ہے کہ: ’’خوب محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو،میں تمہاری کثرت تعداد پر فخر کروں گا۔‘‘[1] اور یہ کہ کثرتِ نسل کثرتِ اُمت کا سبب ہے اور کثرت ِ اُمت عزت کا باعث ہے۔اللہ نے بنی اسرائیل کو فرمایا تھا: ’’اور ہم نے تمھیں تعداد کے لحاظ سے زیادہ بنایا۔‘‘[2]
Flag Counter