Maktaba Wahhabi

181 - 306
گھریلو پریشانیوں کا باعث ہے۔آپ اپنی بیوی کو علیحدہ گھر میں رہنے دیں اور اپنے والد صاحب کی خدمت بھی کریں، ان کو وقت دیں،ان کی زیارت کریں، فون وغیرہ پر بھی ان سے مسلسل رابطہ رکھیں، امید ہپے کہ وہ آپ کی بات سمجھ جائیں گے۔ آپ اپنا وعدہ پورا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور اپنے عہد کو پورا کرو، یقیناً عہد کے متعلق سوال ہو گا۔‘‘[1] اور حالات ایسے ہوں کہ والد یا بیوی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو اوالد کا حکم مانیں اور اپنا عہد توڑ نے پر قسم کا کفارہ دے دےدیں۔ آپ کے لیے طلاق جائز ہے اگر آپ اس کی ضرورت اور حاجت محسوس کریں اور آپ اپنی قسم کا کفارہ دیں گے، یہ اللہ کے اس فرمان ’’اور اپنے عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے متعلق سوال ہو گا۔’‘کے خلاف نہ ہوگا کیونکہ اس سے وہ عہد مراد ہے جو حلال کو حرام نہ کرے۔‘‘ خاوند کا حق مہر استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال۔محترم شیخ صاحب! کیا خاوند کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کا حق مہر کسی ضرورت کے لیے استعمال کرے جبکہ بیوی راضی ہو؟ یادرہے ہمیں اللہ تعالیٰ نے اولاد جیسی نعمت سے نواز رکھا ہے اور میرے بعض دوست کہتے ہیں کہ مہر کا مال استعمال کرنے کے لیے تمام بچوں کی اجازت ضروری ہے۔ جواب۔یقیناً مہر کا مال بیوی کا ہے، وہ اس کی اکیلی مالک ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس مال کو اپنے تصرف میں لائے، لیکن جب بیوی اپنی مرضی کے ساتھ اپنے خاوند کویہ مال دے دے یا اس میں سے کچھ اس کو ہبہ کردے تو یہ اس کے لیے جائز ہے اور اسے اس کو استعمال کرنے کا حق ہے، اب یہ مال خاوند کے لیے حلال ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: ’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو، اگر وہ اپنی مرضی سے تمھیں کچھ دے دیں تو ہنسی خوشی اس کو کھالو۔‘‘[2]
Flag Counter