Maktaba Wahhabi

209 - 306
پاس بیٹھے تھے اور میں رورہی تھی۔ اتنے میں ایک انصاری عورت آئی اور وہ بھی رونے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھ گئے اور جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی وہ میرے پاس نہ بیٹھے تھے اور ایک ماہ اسی طرح گزر گیا تھا۔۔۔ ‘‘[1] مذکورہ حدیث طویل ہے اور اس میں اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یا پاکدامنی کے اعلان کا تذکرہ بھی ہے جو سورہ نور کی ابتدائی آیات کی شکل میں رب کائنات نے نازل فرمایا۔ اس حدیث میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ اُم المومنین رضی اللہ عنہاکے پاس ان کے بستر پر آکر بیٹھ گئے۔اگر بزرگوں کی موجود گی میں بیوی کے ساتھ بیٹھنا جائز نہ ہوتا تو سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی ایسا نہ کرتے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارا وہ طبقہ جو دینی اور دنیا وی تعلیم سے محروم ہے،ان کے اپنے ہی معیار اور اپنی ہی سوچ کے دھارے ہیں اور انھوں نے خود ساختہ اقدار بنا رکھی ہیں۔ اور جو یورپ کی اندھی تقلید میں مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، وہ بزرگوں کو دقیانوس اور مذہبی پابندیوں کو فرسودہ خیال کرتے ہیں کہ شاعر مشرق کو کہنا پڑا: وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود خاوند کے ساتھ کافر ملک کی طرف سفر کرے یا اکیلی رہے؟ سوال۔ ایک خاوند جو کہ یورپی ملک میں تعلیم حاصل کر کے اپنی ملازمت میں ترقی چاہتا ہے، اپنی بیوی کو اختیار دیتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس کے ساتھ کافر ملک میں رہائش اختیار یا پھر سعودی عرب میں اکیلی رہے۔ کیا وہ یہ سفر کرے یا نہ کرے؟ جواب۔الحمد للّٰه رب العالمين وصلي اللّٰه على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين۔ میرے خیال میں بیوی کو ساتھ چلے جانا چاہیے تاکہ وہ جتنی دیر کورس کرتا
Flag Counter