Maktaba Wahhabi

213 - 306
نان و نفقہ کیا اس صورت میں بیوی نان و نفقہ کی حق دار ہو گی؟ سوال۔ ایک لڑکی کو اس کے خاوند نے باہمی ناچاقی کی وجہ سے اپنے گھر سے نکال دیا اور وہ اپنے والدین کے ہاں رہنے لگی، پھر بالآخر ایک سال بعد اس نے طلاق دے کر اسے فارغ کردیا۔ کیا لڑکی کے لیے سال بھر مجبور ہو کر والدین کے ہاں بیٹھے رہنے اور پھر طلاق کے بعد عدت گزرنے تک کے اخراجات خاوند کو برداشت کرنا ہوں گے یا نہیں؟ جواب۔قرآن کریم نے شادی کا مقصد بیوی سے اطمینان اور راحت و سکون حاصل کرنا بیان کیا ہے۔ خاوند اپنی بیوی کے اخراجات برداشت کرے، یہ اسی لیے ہے کہ بیوی وظیفہ زوجیت اور دیگر ہر طرح کے سکون و آرام کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس تمہید کے بعد لڑکی کے اپنے والدین کے ہاں بیٹھ رہنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ٭ بعض اوقات بیوی از خود ناراض ہو کر والدین کے ہاں چلی جاتی ہے اور کسی دوسرے کے بہلانے پھسلانے پر خاوند کے گھر واپس نہیں آتی جبکہ خاوند کی انتہائی کوشش اپنا گھر آباد کرنے کی ہوتی ہے۔اس صورت میں والدین کے ہاں بلاوجہ بیٹھ رہنے والی بیوی اپنے خاوند کی طرف سے نان و نفقہ کی حق دار نہیں ہے کیونکہ اس نے نہ صرف اپنے خاوند کے حقوق کو پامال کیا ہے بلکہ اس کے لیے وہ مزید پریشانی اور ذہنی کوفت کا باعث بنی ہے۔ ٭ دوسری صورت یہ ہے کہ خاوند بلا وجہ اسے اپنے گھر سے نکال دیتا ہے اور لڑکی مجبور ہو کر اپنے والدین کا سہارا لیتی ہے۔ایسے حالات میں بیوی جتنا عرصہ اپنے والدین کے گھر بیٹھی رہے گی خاوند کو اس کا خرچہ برداشت کرنا ہوگا کیونکہ اس صورت میں حقوق کی عدم ادائیگی کا باعث وہ خود ہے۔ صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ لڑکی کو واقعی گھر سے نکالا گیا ہے اور وہ مجبور ہو کر اپنے والدین کے ہاں بیٹھی ہے تو اس کے جملہ اخراجات بذمہ خاوند ہیں۔ اسی طرح رجعی طلاق کے
Flag Counter