Maktaba Wahhabi

226 - 306
مسئلہ کا حل تلاش کیاجائے تاکہ معاملہ زیادہ خراب نہ ہو۔(واللہ اعلم) (ابومحمد عبدالستار الحماد) اپنے آپ کو طلاق دیناکیسا ہے؟ سوال۔ایک عورت نے شادی کی اور اللہ نے اسے بیٹی دی،مگر میاں بیوی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اورعورت نے اپنے ہی آپ کو خود ہی طلاق دے ڈالی اور کسی دوسرے آدمی کے ساتھ نکاح کرلیا۔اس کے گھر والے اس کے نکاح پر راضی بھی تھے اور اس میں شریک بھی ہوئے،اس آدمی سے بھی اس کاایک بچہ ہوچکاہے۔اس طلاق اور دوسرے نکاح کا کیا حکم ہے؟اور دوسرا نکاح کرنے والے پر کیا لازم ہے کہ وہ اس عورت اور بیٹےکے ساتھ کیا سلوک کرے کیونکہ بقول اس کے کہ اگر اس کا فعل غیر شرعی ہے تو وہ اللہ سے توبہ کرنا چاہتا ہے۔ جواب۔اس عورت کا اپنے آپ کو طلاق دینا غیر شرعی اور باطل ہے،اس طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اگر اس طلاق پر اس کا پہلا خاوند رضا مندی اور موافقت کااظہار کرے تو طلاق واقع ہوجائے گی ورنہ نہیں ہوگی،وہ تاحال پہلے خاوند کے نکاح میں ہے،اس کا دوسرا نکاح صحیح نہیں ہے اگرچہ اس کے گھر والے بھی شریک ہوئے۔دوسرے خاوند اور اس عورت کے درمیان جدائی کروانا لازمی ہے،یہ عورت پہلے خاوند کے پاس جائے گی بشرط یہ کہ دوسرے سے جدائی کے بعد ماہواری کے ذریعے استبراء رحم (رحم کا خالی ہونا) ثابت ہوا اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل کرے۔اگر پہلا خاوند طلاق دے دے تو عدت گزرنے کے بعد دوسرے یا کسی بھی شخص سے نکاح کرسکتی ہے۔ دوسرے خاوند سے ہونے والا بچہ اسی کا ہے کیونکہ اس نے ’’نکاحِ شبہ‘‘کیا ہے،وہ صاحب فراش ہے اور بچہ اسی کا ہے۔(عبداللہ بن جبرین) طلاق کب جائز ہے؟ سوال۔محترم شیخ صاحب !بتائیں کہ انسان کے لیے کب جائز ہے کہ وہ طلاق کا حق استعمال کرے؟ جواب۔جب میاں اور بیوی کے درمیان صلح کی تمام کوششیں بے کارثابت ہوں اور طلاق کے علاوہ کوئی حل نہ ہو،بالفاظ دیگر جب علیحدگی اکٹھے رہنے سے بہتر ہو تو پھر طلاق کاحق استعمال ہوسکتاہے ورنہ نہیں۔
Flag Counter