Maktaba Wahhabi

230 - 306
وہ ہیں نکاح، طلاق اور رجوع۔ ‘‘ اس صحیح حدیث سے واضح ہوگیا کہ قصداً اورہنسی مذاق کی دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔لہذا طلاق کے الفاظ بولنے سے ہر صورت اجتناب کیاجائے۔(ابو الحسن مبشر احمد ربانی) غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم سوال۔اگر کوئی آدمی غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دیدے اور بعد میں پچھتائے تو اس کا کیا حل ہے؟ جواب۔غصے والی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے،اس کی دلیل وہ حدیث ہے: (ثلاثٌ جِدُّهنَّ جِدٌّ، وَهَزلُهُنَّ جِدٌّ: النِّكاحُ، والطَّلاقُ، والرَّجعةُ) ’’تین چیزیں جان بوجھ کر کریں یا مذاق میں کریں، واقع ہوجاتی ہیں:نکاح، طلاق اور رجعت۔‘‘[1] اس کی سند حسن ہے،اسے امام ترمذی نے ’’حسن غریب’‘اور حاکم (2/198) نے صحیح کہا ہے۔اس کے راوی عبدالرحمان بن اردک حسن الحدیث ہیں۔[2] اور اس کے کئی شواہد بھی ہیں۔[3] (حافظ زبیر علی زئی) نوٹ:٭ میں مترجم عرض کررہا ہوں کہ ہمارے ہاں بعض لوگ طلاق کے معاملہ میں انتہائی غیر مناسب اور غیر محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بعض لوگ غصہ میں آکر اپنی بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق کہہ دیتے ہیں۔ پھر ہمارے ہاں جن مفتیان کی کثرت ہے وہ تینوں طلاقوں کے واقع ہو جانے کا فتوی دیتے ہیں اور اگر خاوند کہے کہ میں بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہوں تو حلالہ کا دروازہ دکھاتے ہیں۔ اب خاوند بیچارہ پریشان ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے غصے کی حالت میں طلاق دی تھی، میں نے سوچ سمجھ کرطلاق نہیں دی تھی لہٰذا یہ طلاق کیسے واقع ہو گئی؟ شرعی دلائل کی بنیاد پر طلاق واقع ہو جاتی ہے اگرچہ الگ مسئلہ ہے کہ بیک وقت دی گئی
Flag Counter