Maktaba Wahhabi

273 - 306
پہلی سے زیادہ ادا کرتا ہے،کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟ جواب۔مہر کا مقرر کرنا خاوند بیوی کامعاملہ ہے جو کہ اولیاء کے ذریعے سے طے کیا جاتا ہے۔حالات کی مناسبت سے اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے،لہذا میرے نزدیک ایسا کرنا پہلی بیوی کی حق تلفی نہیں ہے۔(واللہ اعلم) (حافظ زبیر علی زئی ) دوسری شادی کے لیے بیوی سے اجازت سوال۔کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟ جواب۔مرد کو چارشادیوں کا جو حق عطا کیا گیا ہے اس میں کہیں بھی پہلی بیوی کی اجازت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے،اور نہ ہی رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی اجازت کا ذکر فرمایا ہے۔یہ غیر شرعی قوانین میں سے ہے جسے ہلکی نکاح ناموں میں درج کردیا گیاہے۔مرد نکاح کرنے میں آزاد ہے،البتہ اسے شریعت نے بیویوں کے حقوق کی ادائیگی کا درس دیاہے،اس میں مساوات سے کام لے،باری تقسیم کرے، خوراک، لباس اور رہائش دینے میں عدل وانصاف سے کام لے۔اگر بے انصافی کرے گا تو قیامت والے دن اس کا جسم ایک طرف سے فالج زدہ ہوگا۔لہذا جو بھائی دوسری شادی کرے،اسے عدل وانصاف کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے اور اگر عدل نہ کرسکے تو پھر ایک عورت ہی کافی ہے،جیساکہ سورہ نساء کے ابتداء ہی میں توضیح موجود ہے۔(علماء کمیٹی) نوٹ:٭ میں مترجم عرض کررہا ہوں کہ اسلام نے مرد کو چارشادیاں کرنے کی اجازت دی ہے اور اس مسئلہ میں بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔البتہ اگر اس سے مشورہ یااجازت لے کر دوسری شادی کی جائے تو یہ مروت اور حسن ِ تعاون کانمونہ ہے،مگر ہمارے ہاں دوسری شادی کے بعد جو قباحت دیکھنے میں آئی ہے وہ بیویوں کے درمیان ناانصافی اور عدمِ مساوات ہے۔لوگ ایک بیوی کوترجیح دیتے ہیں اور ایک بیچاری سے قطع تعلقی کرلیتے ہیں، وہ اور اُس کے بچے دَر دَر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ایک بیوی نازونعم اور عیش وعشرت سے زندگی بسر کرتی ہے اور دوسری لوگوں کے گھروں میں برتن اور کپڑے دھوکر گزارہ کرتی ہے۔ اگر ایک سے زائد شادیاں انسان کو ایسے خوفناک جرم میں مبتلا کرنے کا سبب ہوں کہ وہ
Flag Counter