Maktaba Wahhabi

305 - 306
پر حق یہ ہے کہ ان کی روٹی اور ان کے کپڑا دستورکے مطابق تمھارے ذمہ ہے۔‘‘[1] ایسے لوگوں کو بتایا جائے کہ مسلمان کا احترام اور اس کے حقوق کا خیال کیا جائے چاہے وہ مرد ہو یا عورت ہو، اور یاد رہے کہ کسی بھی انسان کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حاصل کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہے(محمد بن ابراہیم آل شیخ) وراثت میں مرد و عورت کی برابری سول۔شیخ صاحب !ایک عورت کہتی ہے کہ میرا بھائی فوت ہو گیا اور اس کی امانت اسی ہزار(80000)ریال میرے پاس تھی۔ میرے بھائی کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ چند دن کے بعد اس کا بیٹا میرے پاس آیا اور مذکورہ رقم کا مطالبہ کیا مگر میں نے یہ کہہ کر رقم دینے سے انکار کردیا کہ وہ اس نے مجھے ہبہ کی تھی۔ پھر میری بھتیجی آئی اور اپنے والد کی امانت کا مطالبہ کرنے لگی مگر میں نے دینے سے انکار کردیا۔ چند دن کے بعد مجھے اللہ کا خوف دامن گیر ہوا اور میں نے دونوں بہن بھائیوں کو چالیس ہزار(40000)ریال فی کس دے دئیے۔ پھر میں نے ایک عالم سے پوچھا کہ کیا میں نے صحیح کیا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ تم نے غلط کیا ہے۔ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملنا چاہیے تھا۔ بتائیے کیا ان کی یہ بات صحیح ہے اور میں اس حالت میں کیا کروں؟ جواب۔ بیٹی! سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تم نے امانت واپس دینے سے انکار کر کے اچھا نہیں کیا، امانت ادا کرنا واجب ہے۔ دوسری بات یہ ہےکہ مرد اور عورت کو وراثت کے مال سے برابر حصہ دینا صحیح نہیں ہے، یہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: (يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ) [2] ’’اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ اگر اولاد میں مرد اور عورتیں ہوں تو پھر مرد کا حصہ عورت کے حصہ سے دوگناہو گا، عورت
Flag Counter