Maktaba Wahhabi

306 - 306
اور مرد کو ایک جیسا حصہ دینا صحیح نہیں ہے۔آپ کو اس معاملہ کا ادراک کرنا چاہیے اور جو کچھ آپ نے لڑکی کو زیادہ دیا ہے وہ اس سے واپس لے کر اس کے بھائی کو دیں۔ اگر آپ اپنی بھتیجی سے وہ رقم واپس نہ لے سکیں تو لڑکے کا حصہ آپ کو اپنی طرف سے پورا کرنا ہوگا۔(واللہ اعلم)(صالح بن فوزان) زندگی میں وراثت تقسیم کرنا سوال۔میں اپنے بچوں میں اندیشہ فساد کے پیش نظر اپنی جائیداد کو خود تقسیم کر دینا چاہتا ہوں، کیا شرعاً مجھے ایسا کرنے کا حق ہے؟اگر اس میں ایسا کر سکتا ہوں تو یہ تقسیم کس شرح سے ہو گی؟ جواب۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے خود مختار بنایا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کو جیسے چاہے استعمال کرے۔مال و جائیداد بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔اس میں بھی اسے اپنی مرضی سے جائز تصرف کا حق حاصل ہے۔اس بناء پر اپنی زندگی میں اپنے مال کو اپنی اولاد میں تقسیم کر سکتا ہے اور جتنا چاہے اپنے لیے بھی رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر انسان اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔وہ اسے جہاں چاہے جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔‘‘[1] لیکن زندگی میں یہ تقسیم ضابطہ میراث کے مطابق نہیں ہوگی کیونکہ غیر اختیاری طور پر حق ملکیت اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے جبکہ یہ تقسیم اپنی زندگی میں، اپنے اختیار اور ارادہ سے کی جا رہی ہے۔ ہاں یہ عطیہ کی ایک شکل ہے جس میں لڑکے اورلڑکی کا لحاظ کیے بغیر اپنی اولاد میں مساویانہ طور پر مال تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک باب یوں قائم کیا ہے(بَابُ الْهِبَةِ لِلْوَلَدِ) یعنی اولاد کو ہبہ کرنے کا بیان، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت لکھتے ہیں: ’’اگر باپ اپنی اولاد میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے تو اسے جائز قرارنہیں دیا جائے گا تاآنکہ وہ عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے دوسروں کو بھی اس کے برابر
Flag Counter