Maktaba Wahhabi

40 - 306
خریدنا ہے،اس بات کے دلائل ذکر ہوچکے ہیں کہ باپ کنواری نوجوان بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور نہیں کرسکتا اور احادیث میں وضاحت موجود ہے تو لڑکے کو کیسے مجبور کرسکتا ہے خصوصاً ایسی لڑکی کے ساتھ جو اچھی شہرت کی حامل نہیں ہے؟(محمد بن صالح العثیمین) چچا کی بیٹی کو شادی سے روکنے کا حکم سوال۔ایک آدمی اپنے چچا کی بیٹی کو شادی سے روکے ہوئے ہے اور اسے کہیں نکاح نہیں کرنے دیتا اور چاہتا ہے کہ خود اس سے شادی کرے یا اپنے بھائی سے اس کانکاح کردے جبکہ وہ لڑکی ان دونوں کو ہی ناپسند کرتی ہے اس کے انکار کی بنا پر نہ ہی تو وہ خود اس سے نکاح کرسکتا ہے اور نہ اسے آگے کہیں شادی کرنے دیتا ہے۔کیا اس آدمی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس لڑکی کو شادی سے روکے رکھے یا نہیں؟ جواب۔ہم کہنا چاہیں گے کہ یہ زبردستی کسی طرح بھی جائز نہیں،شریعت اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتی ہے اور اسلام ایسی جہالت سے بری الذمہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر غور کرنے سے پتہ چلتاہے کہ یہ زبردستی ناجائز ہے اور زبردستی کا نکاح حرام ہے۔ یہ رکاوٹ انتہائی بڑا ظلم اور زبردست زیادتی ہے۔اس بے بس اور مجبور لڑکی پر ظلم کرنے والا انسان ظالم ہے۔اسلامی شرعی عدالت پر لازم ہے کہ وہ اس بچی کو اس ظالم درندے سے نجات دلائے جو زبردستی اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اسے بیچاری کے جذبات کا قطعاً کوئی خیال نہیں ہے۔ اگراس ظالم شخص کو قرآنی احکام کی کوئی پرواہ نہیں اللہ تعالیٰ کا کوئی خوف نہیں تو حاکمِ وقت کو چاہیے کہ اسے اپنے ڈنڈے سے سیدھا کردے۔ہم اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور توفیق کاسوال کرتے ہیں۔(محمد بن ابراہیم آل شیخ) کیابیوہ کو زبردستی شادی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا؟ سوال۔آپ ایسی عورت کے نکاح کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس کو اس کے باپ نے زبردستی اس کی رضا مندی کے بغیر بیاہ دیا حالانکہ وہ پہلے شادی کرچکی ہے اور اب بیوگی کی زندگی گزار رہی ہے۔ جواب۔اگر صورتحال یہی ہے جو سوال میں ذکر کی گئی ہے تو ایسا نکاح باطل اور غیر صحیح ہے۔
Flag Counter