Maktaba Wahhabi

63 - 306
کرنے والے کی مالی حیثیت کے مطابق باہمی رضامندی سے مقرر کیا جائے گا، مگر اس وقت دلی افسوس ہوتا جب لوگ کہتے ہیں کہ شرعی حق مہر مقرر کردیں یا پھر یہ کہہ دیتے ہیں کہ چلو جی 500 روپے لکھ دیں۔ افسوس ہماری بے دین زندگی پر کہ شادی اور فضول رسموں پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہانے والا اور برادری میں ناک اونچی رکھنے کے نام پر بے حساب پیسہ اجاڑدینے والا یہ کیوں نہیں سوچتا کہ مہر کی رقم لڑکے کی مالی حیثیت کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہاں اسے شرعی حق مر یا 500،1000روپے کی منطق یاد آتی جاتی ہے۔ یاد رکھیے، شرعی حق مہر کا فلسفہ شیطانی ہے جو بعض مفاد پرستوں کا مقرر کردہ ہے۔شریعت نے اگرچہ اس کی رقم مقرر نہیں کی مگر اسے دولہا کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کرنے کی ترغیب دی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کو 500درہم مہر ادا فرمایا ہے۔[1] زیوربھی بطور مہر مقرر کیا جا سکتا ہے۔سید ناعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شادی کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا تو نے کتنا مہر ادا کیا؟ انہوں نے عرض کیا سونے کی ایک گٹھلی۔[2] لہٰذا اس معاملہ میں شادی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا چاہیے اور کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ محض دکھلاوے کے لیے بہت زیادہ مہر مقرر کرتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ شادی کرنے والے کی مالی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کونسا دینا ہے؟ یاد رہے مہر فقط عورت کا حق ہے اور اس میں کسی دوسرے کو تصرف کا اختیار نہیں ہے۔ اس میں تاخیر تو ممکن ہے مگر اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ اگر عورت اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ اور زبردستی کے اپنے خاوند کو معاف کردیتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ورنہ مہر کی رقم بیوی کو ادا کرنا ضروری ہے۔ کیا مہر کی ادائیگی میں تاخیر ممکن ہے؟ سوال۔ کیا مہر کی ادائیگی میں تاخیرہو سکتی ہے اور کیا اس میں زکوٰۃ واجب ہے؟
Flag Counter