Maktaba Wahhabi

64 - 306
جواب۔ مہر کی ادا ئیگی میں تاخیر جائز ہے اور ایک مدت کے بعد دیا گیا حق مہر بالکل صحیح اور جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو۔‘‘[1] لہٰذا عہدو پیمان اور اس کی شرط کو پورا کرنا ہے۔ جس آدمی نے تاخیر سے مہرادا کرنے کی شرط طے کی تو یہ جائز ہے، چاہے تومہر پورے کاپورا یا بعض تاخیر سے ادا کرے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر اس نے مہر کی ادائیگی کے لیے کوئی مدت مقرر کی ہوتو وقت آنے پر مہر ادا کردے اور اپنی ذمہ داری سے بطریقِ احسن عہدہ برآہواوراگر اس نے مہر کی ادائیگی کو مؤخر رکھا مگر اس کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی تو اس صورت میں مندرجہ ذیل حالتوں میں اس کی ادائیگی اس پر لازم ہوگی۔ 1۔میاں بیوی میں جدائی۔(طلاق) 2۔نکاح کا فسخ (ختم) ہوجانا۔ 3۔موت۔ عورت پراس مہر میں زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا بشرط یہ کہ اس کا خاوند مالدار ہولیکن اگر وہ فقیر ہے تو اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم نہیں ہے۔اگر لوگ اس مسئلہ کو سنجیدہ ہو کر ا پنا ئیں،اس کی شروط کو پوراکریں تو شادیوں میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔عورت اپنی مرضی اور خوشی سے حق مہر اپنے خاوند کو معاف کرسکتی ہے۔بشرط یہ کہ اسے ڈرایا دھمکایا نہ جائے اور اسے مجبور نہ کیا جائے۔مہر عورت کا حق ہے۔اگر اسے مجبور کرکے معاف کرواگیا تو یہ ہرگز معاف نہیں ہوگا بلکہ خاوند کے ذمہ واجب الادا رہے گا۔بعض لوگ طلاق کی دھمکی دے کر مہر مؤجل(مؤخر) معاف کروانے کی غلط کو شش کرتے ہیں، ایسا کرنا ہر گز درست نہیں ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ (محمد بن صالح العثیمین) ولی کی طرف سے مہر اپنے پاس رکھنے کی شرط کیسی ہے؟ سوال۔ کیا کوئی آدمی اپنی بیٹی یا بہن کا مہر اپنے پاس رکھنے کی شرط پر اس کا نکاح کر سکتا ہے؟
Flag Counter