Maktaba Wahhabi

70 - 306
(1512)،کتاب الام از شافعی 5/265)،السنن الکبری از بیہقی (7124)، مجمع البحرین(4/2163)اور مجمع الزوائد میں موجود ہے۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں۔ ’’اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔‘‘ لہٰذا جوولی عورت کا جائزو مناسب دینی رشتہ ملنے کے باوجود اس کے نکاح میں دلچسپی نہلے اور اپنے ہی کاموں میں مگن ہو تواس کی ولایت معدوم ہے۔اولیاء میں سے باپ اور بیٹے سب سے زیادہ قریب ہیں پھر والدین کی طرف سے بھائی، پھر باپ یا ماں کی طرف سے بھائی،پھر پوتے،نواسے،پھر بھتیجے اور بھانجے، پھر چچا اور ماموں وغیرہ ہیں۔[1] لہذا سائلہ محترمہ اپنے اولیاء سے رابطہ کرے،اگر قریبی ولی دلچسپی نہ لے تو دور والے سے رابطہ کرے،جن کی ترتیب اوپر درج کر دی گئی ہے اور اگر ان میں سے کوئی بھی اس کے نکاح میں دلچسپی نہ لےاور نکاح کرنے کا تیار نہ ہو تو ان کی ولایت نہ ہونے کی طرح ہوگی اور سلطان و حاکم ولی ہوگا،اس کےذریعے سے نکاح ہوجائے گا۔اگر لڑکی کے اولیاء میں سے کوئی بھی اس کا نکاح کرنے پر تیار ہوجائے تو حاکم کی ولایت کالعدم تصور ہوگی۔ (ابوالحسن مبشر احمد ربانی) کورٹ میرج کی شرعی حیثیت سوال۔کورٹ میرج کے متعلق شرعی احکام سے آگاہ فرمادیں۔ جواب۔موجودہ معاشرے میں امت مسلمہ کے اندر فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو عام کرنے کے لیے مختلف یہودی ادارے، آزادی نسواں کے نام سے اٹھنے والی تحریکیں اور یہود و نصاریٰ کے تحت اسلامیات کی ڈگریاں لینے والے پروفیسرز اور وکلاء اپنا اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔اگر کوئی لڑکا اور لڑکی عشق معاشقے کےمارے گھر سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں تو انہیں پولیس اور نام نہاد عدالتوں کا سہارا مل جاتا ہے۔وہ اپنی غلط روش کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے بندھن کا روپ دے لیتے ہیں۔آج کل نوجوان لڑکیوں کی خودسری اور گھروں سے فرار کی وبا عام ہے۔بدقسمتی کی بات ہے کہ بعض نام نہاد علماء بھی انہیں سندِ جواز فراہم کرتے ہیں۔ان
Flag Counter