Maktaba Wahhabi

75 - 306
نکاح کیا جائے۔ جو کچھ پہلے گزر چکا ہے اس میں اس عورت پر کوئی جرمانہ عائد نہیں ہو تا دونوں کی اولاد شرعی تصور کی جائے گی۔ ان کا نسب ان کے باپ کی طرف منسوب ہوگا اور یہ نسب بالکل صحیح تصور ہو گا بشرطیکہ دونوں صحت نکاح کا اعتقاد رکھتے ہوں۔گزشتہ چار سالوں میں میاں بیوی کے قائم شدہ تعلقات کو زنا وغیرہ سے تعبیر کرنا صحیح نہیں ہو گا۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میں وطی شبہ کہتے ہیں۔ اس لڑکی کی نماز کے بارے میں سوال کیا گیا ہے تو اس کے متعلق ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ اس پر لازم ہے کہ وہ سورۃ فاتحہ اور نماز کے ضروری اذکار اور دعاؤں کو یاد کرنے کی فوراً کوشش کرے۔ (محمد بن ابراہیم آل شیخ) بغیر ولی نکاح اور ٹیلی فونک دوستی کا حکم سوال۔ کیا نوجوان کنواری لڑکی اپنے والد کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتی ہے اور کیا وہ کسی نوجوان کے ساتھ بذریعہ ٹیلی فون یا بذریعہ خط و کتابت گفتگو کر سکتی ہے؟ جواب۔کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے والد کی اجازت کے بغیر شادی کرے کیونکہ وہ اس کا ولی (سر پرست) ہے۔والد کی نظر، تحقیق اور جانچ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، لیکن والد کے لیے بھی یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو مناسب اور بہترین لڑکا مل جانے کے باوجود شادی سے روکنے کی کوشش کرے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’ جب تمھیں کوئی ایسا نو جوان شادی کا پیغام بھیجے جس کے دین اور امانت سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ(اپنی بیٹی، بہن وغیرہ کی) شادی کردو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔‘‘[1] اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ لڑکی کے لیے یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ اس لڑکے کے ساتھ شادی پر اصرار کرے جس کو اس کا باپ ناپسند کر رہا ہے۔ باپ کی نظر بیٹی کی نسبت زیادہ بہتر اور دور رس ہے اور شاید یہ شادی نہ کرنے میں ہی بھلائی ہو اور وقتی طور پر یہ
Flag Counter