Maktaba Wahhabi

80 - 306
کے باپ کے قریبی رشتہ داروں میں کسی کو ولی بنایا جائے گا۔اگر وہ درجہ میں برابر ہیں تو لڑکی خود ان میں سے کسی ایک کو نکاح منعقد کرنے کی اجازت دے گی اس کا بھائی ہرگز ولی نہیں بن سکے گا کیونکہ وہ ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچاہے البتہ اگرماموں دیگر موجود رشتہ داروں کی نسبت بچی کے زیادہ قریب ہوتو نکاح صحیح تصور کیاجائے گا اور اگر اس سے قریبی رشتہ دار موجود ہے تو یہ نکاح صحیح نہیں اس کی تجدید ضروری ہے اس صورتحال میں میاں بیوی کے درمیان جدائی کروادی جائے تاآنکہ نکاح کی تجدید ہوجائے۔(محمد بن ابراہیم آل شیخ) لڑکی کا ولی اس کو نکاح سے روکنا چاہتا ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ سوال۔ایک لڑکے کی طرف سے لڑکی اور اس کے ولی(سرپرست) کو نکاح کا پیغام ملا،مگر لڑکی کے ولی نے اس پیشکش کو قبول کرنے سےانکار کردیا کیونکہ وہ اسے ذاتی فائدے اور لالچ کی بناء پر نکاح سے روکنا چاہتا ہے۔ جواب۔لڑکیوں کے اولیاء اور سرپرستوں پر لازم ہے کہ جب انہیں مناسب اور اچھا رشتہ مل جائے تو وہ اپنی بچیوں کی فوراً شادی کردیں بشرط یہ کہ جس لڑکی کی شادی مقصود ہووہ بھی رضا مند ہو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہیں کسی ایسے(لڑکے) کی طرف سے منگنی کا پیغام ملے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہوتو اس سے(اپنی بچی کی) شادی کردو۔اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔‘‘[1] اولیاء کے لیے جائز نہیں کہ وہ لڑکیوں کو فقط اس لیے نکاح سے روکے رکھیں کہ وہ اپنے چچازاد،ماموں زاد یا خالہ زاد بھائیوں سے نکاح کے لیے رضا مند ہوجائیں یا پھر وہ ان کو ایسے لڑکوں سے نکاح کے لیے روکے رکھیں جن کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہے۔اس طرح کی کسی اور غرض کے لیے بچیوں کے نکاح کو مؤخر کرنا زبردست بے وقوفی ہےایسی بیہودہ اغراض اور لالچ سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ مسلمان حکمرانوں، ججوں اور حکومتی عہدیداروں پر لازم ہے کہ وہ ایسے ظالم افراد کا ہاتھ
Flag Counter