Maktaba Wahhabi

82 - 306
(سرپرست) اورگواہ موجود ہوں اورباقاعدہ ایجاب وقبول کروایاجائے۔یاد رہے کہ ایجاب سرپرست جبکہ قبول خاوند کی طرف سے ہوتا ہے۔فقط دو افراد کی رضا مندی سے نکاح نہیں ہوگا۔نکاح کے لیے نکاح کی شروط کا پورا ہونا لازم ہے۔ قرآن مجید پہ وعدہ،یہ ایک نئی بات اور بدعت ہے ان خرافات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس طرح کا نکاح ہرگز شرعی نہ ہوگا۔کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح خود کرے بلکہ اس کا نکاح اس کا ولی کرے گا۔ آپ نے جو صورتحال ذکر کی ہے کہ آپ کے خاندان والے اور عورت کے سرپرست اس نکاح کو پسند نہیں کرتے تو آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس نکاح سے دور رہیں۔اللہ نے بہت سی عورتیں پیدا کی ہیں کسی اور سے نکاح کرلیجئے۔ اُس کے لیے کوئی اورخاوند اورآپ کے لیے کوئی اور بیوی مناسب رہے گی۔اس جگہ شادی بہترہے جہاں کوئی جھگڑا اورفساد جنم نہ لے۔(علماء کمیٹی) نکاح میں نوجوان لڑکی سے اجازت سوال۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دختر جوان بالغہ کا نکاح فقط اس کے اذن(اجازت) سے ہوسکتا ہے یا نہیں؟اگر بغیر اذن کسی ولی کے نکاح اس کا ہوجائے تودرست ہے یا نہیں؟بینواتوجروا۔ جواب۔دختر بالغہ کا نکاح فقط اس دختر کےاذن(اجازت) سے صحیح ودرست ہے۔اور اذن باکرہ دختر کا یہی ہے کہ جب اس سے نکاح کا اذن(اجازت) لیا جائے تو وہ بولے یا خاموش رہے۔اس کاسکوت بھی اذن ہے۔کسی ولی کا جبر اس پردرست نہیں۔تمام فقہ کی کتابوں میں اس کی تصریح ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) (سید نذیر حسین دہلوی) بیٹی کا زبردستی نکاح سوال۔کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت عاقلہ بالغہ اپنا شوہر معین (مقرر) ہونے او ر عین ایجاب کے وقت کہہ رہی تھی اور گریہ وزاری کررہی تھی کہ میرا نکاح زید کے ساتھ نہ کرنا۔چنانچہ شاہد موجود ہیں مگر باپ نے نہ لڑکی کی مرضی پر توجہ کی اور نہ کسی غیر کاکہنا
Flag Counter