Maktaba Wahhabi

76 - 92
اس حدیث سے یہ استدلال لیا جاتا ہے کہ داڑھی کو کاٹنا اور سیٹ کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ نبی کا فعل ہے۔ اور منڈھوانے والے بھی یہی دلیل لیتے ہیں آیئے ذرا اس دلیل کا جائزہ لیں۔ استدلال کی حقیقت اور اس کا رد: پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں داڑھی کو لینے کا ذکر ہے منڈھوانے یعنی بالکل صاف کروانے کا ذکر ہی نہیں سابقہ بحث میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ داڑھی منڈھوانے والوں کے پاس سوائے شیطانی وساوس کے اور کچھ نہیں اور یہی ان کی پونجی تھی دلائل کی جو واضح کر رہی ہے کہ یا خذ کا مطلب لینا ہوتا ہے بالکل صاف کرنا نہیں یہ بھی بات اس وقت ہم کریں جب یہ حدیث ثابت ہو گی تو حقیقت میں یہ حدیث ثابت ہی نہیں جس کی تفصیل یہ ہے: ٭ یہ حدیث صرف امام ترمذی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے اور ساتھ یہ ریما ر کس جاری کیے ہیں کہ (ھٰذا حدیث غریب)’’یہ حدیث غریب ہے‘‘… اور پھر فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسمٰعیل البخاری سے سنا کہ اُنہوں نے کہا (لااعرف لہ حدیثا، لیس لہ اصل)’’کہ یہ حدیث عمر بن ہارون نے بیان کی ہے۔میں اس کی کوئی حدیث نہیں جانتا اور اس کی کوئی اصل نہیں‘‘…معلوم یہ ہوا کہ امام ترمذی نے اس کو ذکر اس لیے نہیں کیا کہ یہ دلیل بن جائے بلکہ غریب کہہ کر اشارہ کیا کہ یہ قابل حجت نہیں۔ اور اپنے استاد رئیس المحدثین امام بخاری کی رائے بھی اس لیے ذکر کی کہ بات پکی ہو جائے تاکہ لوگوں کی زبان پر اگر یہ حدیث آئے تو رئیس المحدثین امام بخاری کی بات کو ذہن میں ضرور رکھیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔حافظ ابن حجر نے بھی (فتح الباری 10/4 30) میں یہی نقل کیا ہے اورلکھا ہے کہ( وقد ضعف عمر بن ہارون مطلقا جماعۃ) ’’عمر بن ہارون کو ایک جماعت نے مطلقاً ضعیف کہا ہے۔‘‘ ٭ اس روایت کا راوی عمر بن ہارون بن یزید ثقفی بلخی ہے جس کے بارے میں امام ابن حجر لکھتے ہیں(متروک) (تھذیب التھذیب1،2/70)’’یہ متروک ہے اس کی حدیث
Flag Counter