Maktaba Wahhabi

210 - 288
کرتا ہے][اور کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ بات کرے،سوائے اس کے کہ اس پر وحی نازل کرے،یا پس پردہ سے] اور جو تجھے آئندہ کل کے بارے میں بتلائے،اس نے جھوٹ بولا،پھر انہوں نے[آیت کریمہ]پڑھی:[جس کے معانی کا ترجمہ یہ ہے:بے شک اللہ تعالیٰ ہی کو قیامت کا علم ہے،اور وہی بارش برساتا ہے،اور وہی جانتا ہے جو ماں کے رحم میں ہوتا ہے،اورکوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا،اور نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ زمین کے کس خطے میں اس کی موت ہو گی،یقینا اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا،بڑا باخبر ہے] اور جو تجھے یہ خبر دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے[کچھ]چھپایا اس نے جھوٹ بولا۔پھر انہوں نے[یہ آیت کریمہ]پڑھی:[جس کے معانی کا ترجمہ یہ ہے:اے رسول ! آپ پر آپ کے رب تعالیٰ کی جانب سے جو نازل کیا گیا ہے،اسے پہنچا دیجیے] لیکن انہوں نے جبریل علیہ السلام کو اپنی[حقیقی]شکل میں دیکھا۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے مسروق رحمہ اللہ کے سوال پر تعجب اور غصے کا اظہار اس لیے کیا،کہ انہیں ان سے ایسے سوال کی توقع نہ تھی۔اہل علم کا ایسی بات یا حرکت کا کرنا،جو ان کی شان کے شایان نہ ہو،انہیں ڈانٹ ڈپٹ کا مستحق بنا دیتا ہے۔[1] امام نووی رحمہ اللہ نے شرح حدیث میں تحریر کیا: ((أَمَا قَوْلُہَا(سُبْحَانَ اللّٰه)فَمَعْنَاہُ:اَلتَّعَجُّبُ مِنْ جَہْلِ مِثْلِ ہٰذَا۔وَکَأَنَّہَا تَقُوْلُ:’’کَیْفَ یَخْفٰی عَلَیْکَ مِثْلَ ہٰذَا‘‘؟))[2]
Flag Counter