Maktaba Wahhabi

215 - 288
وہ انہیں سروں کے منڈھوانے[ہی]کا حکم کیوں نہیں دے دیتے ؟ یقینا میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک[ہی]برتن سے غسل کیا کرتے تھے،میں اپنے سر پر تین دفعہ پانی ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہ کرتی۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہانے دوران احتساب اظہار تعجب کیا،اور سخت رویہ اختیار کیا۔شاید اس کا سبب یہ تھا کہ انہیں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ اس قسم کا فتویٰ دیں گے۔ 2 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے اپنے احتساب کی تایید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں مینڈھیوں کے کھولے بغیر اپنے غسل کا ذکر کیا۔اگر مینڈھیوں کا کھولنا ضروری ہوتا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ایسا کرنے کا حکم دیتے۔ 3 حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے علم وورع کے باوجود اپنے فتویٰ میں معصوم نہ تھے۔ تنبیہ: امام نووی رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے اس فتوے کے سبب کے متعلق متعدد احتمالات پیش کیے ہیں۔انہوں نے تحریر کیا ہے کہ شاید انہیں حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی اس بارے میں روایت کردہ حدیث کا علم نہ تھا،یا ان کا بالوں کو کھولنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں،بلکہ ازراہ استحباب تھا۔[1] ان کے فتوے کا سبب کچھ بھی ہو،لیکن بنیادی قاعدہ اور حتمی اصول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف سے متعارض کسی بھی امتی کے فتویٰ کی کوئی حیثیت نہیں۔ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کیا خوب بات فرمائی ہے: ((مَا مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَہُوَ مَأْخُوْذٌ مِنْ کَلاَمِہِ،وَمَرْدُوْدٌ عَلَیْہِ إِلاَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔))[2]
Flag Counter