Maktaba Wahhabi

233 - 288
دوران)صفا اور مروہ کے درمیان سعی چھوڑنے والے پر گناہ نہیں سمجھتا،اور مجھے خود بھی(حج وعمرے کے دوران)سعی چھوڑنے پر کچھ فکر نہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا:’’اے میرے بھانجے ! تو نے بری بات کی ہے۔[ان کے درمیان]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی کی،اور مسلمانوں نے سعی کی،اسی وجہ سے یہ سنت ہے۔ درحقیقت بات یہ تھی کہ جو لوگ مشلّل نامی جگہ میں موجود بت[مناۃ]کے لیے حج کرتے،وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے۔جب اسلام آیا تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا،تو اللہ تعالیٰ نے[یہ آیت کریمہ]نازل فرمائی: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا} اور اگر بات وہی ہوتی جو تم کہہ رہے ہو،تو آیت کریمہ یوں ہوتی: {فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ لاَّ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} [ترجمہ:’’ان کے درمیان سعی نہ کرنے کی صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘] زہری[حدیث کے ایک راوی]نے کہا:میں نے اس بات کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رحمہ اللہ سے کیا۔تو انہوں نے اس کو[بہت]پسند کیا۔اور فرمایا:’’درحقیقت یہی تو علم [1]ہے۔’‘[2] قصے سے مستفاد باتیں: 1 ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھانجے کے احتساب میں سخت روی اختیار کرتے ہوئے فرمایا[تم نے بہت بری بات کہی ہے]،لیکن ساتھ ہی اے میری بہن کے بیٹے فرما
Flag Counter