Maktaba Wahhabi

294 - 288
’’حکم تو عام طور پر کئے جانے والے عمل سے ثابت ہوتا ہے،شاذ ونادر بات سے حکم ثابت نہیں ہوتا،اور یہ واقعہ تو بہت ہی شاذونادر قسم کا ہے۔‘‘ قصے کے ثابت ہونے کی صورت میں اس سے مراد یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا معاملہ ان کے سپرد کیا ہو گا جس کا تعلق صرف خواتین سے تھا۔قاضی مجیلدیرحمہ اللہ نے اس سلسلے میں لکھا ہے۔ ((وَلَعَلَّہُ فِيْ أَمْرٍ خَاصٍ یَتَعَلَّقُ بِأُمُوْرِ النِّسْوَۃِ۔))[1] ’’شائد کہ وہ بات خصوصی طور پر عورتوں ہی کے متعلق تھی۔‘‘ ڈاکٹر امام نے اس روایت کے متعلق تحریر کیا ہے: ((وَإِنْ کُنَّا نَمِیْلُ إِلَی تَخْصِیْصِ ہٰذَا الْأَثَرَ وَمِمَّا یَمَاثِلُہُ إِلَی أَنْ تَوَلِیَّۃَ الْمَرَأَۃِ لِلْحَسْبَۃِ تَکُوْنُ فِي الْمُجْتَمِعَاتِ النِّسَائِیَّۃٍ بَائِعَاتٍ وَّمُشْتَرِیَاتٍ،وَمِثْلُ مَا کَانَ مَعْرُوْفًا مِّنْ حَمَّامَاتٍ عَامَّۃٍ لِّلنِّسَائِ،فَذٰلِکَ أَقْوَمُ سِیَاسَۃً وَأَقْسَطُ شَرِیْعَۃً۔))[2] ’’ہماری نظر میں راجح بات یہ ہے کہ اس روایت اور اسی طرح کے دیگر آثار کا تعلق ایسے نسوانی معاشروں سے ہے،جہاں بیچنے والی اور خریدار سب عورتیں ہوں،اور جیسے کہ گزشتہ زمانے میں عام حمام صرف عورتوں کے لیے ہی مخصوص جگہیں ہوتی تھیں۔یہ بات نظام کے اعتبار سے زیادہ مضبوط اور شرعی اعتبار سے زیادہ انصاف والی ہے۔‘‘ اس قصے کے متعلق ظافر قاسمی کی غلط فہمی: جن لوگوں نے الشفاء رضی اللہ عنہاکے قصے سے استدلال کرتے ہوئے ٹھوکر کھائی ہے،ان میں سے لبنان کے ایک استاد ظافر قاسمی ہیں۔ذیل میں پہلے ان کا بیان نقل کیا جا رہا ہے،پھر اس کا تنقیدی جائزہ بتوفیق الٰہی پیش کیا جائے گا۔
Flag Counter