Maktaba Wahhabi

83 - 288
انہوں نے کہا:’’اللہ تعالیٰ کی قسم ! آپ ایسے کو ٹھکرایا نہیں جاتا،لیکن آپ کافر ہیں اور میں مسلمان ہوں،اور میرے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ سے شادی کروں۔اگر آپ مسلمان ہو جائیں تو یہی میرا حق مہر ہے،میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کروں گی۔‘‘ ثابت [1] نے فرمایا:’’میں نے ابھی تک کسی عورت کے متعلق نہیں سنا جس کا حق مہر ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حق مہر سے زیادہ باوقار ہو۔ان کا حق مہر[ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا]اسلام تھا۔ان دونوں کی شادی ہوئی اور ان کے ہاں اولاد ہوئی۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مسلمان ہونے پر فخر واعتزاز کرنا،اور یہ بات ان کے اس فرمان سے واضح ہے کہ:’’تو تو کافر ہے،اور میں مسلمان عورت ہوں،اور میرے لیے تجھ سے شادی کرنا جائز نہیں۔‘‘ اللہ اکبر ! مقام افسوس اور دکھ ہے کہ آج کے بعض مسلمان غیروں کے سامنے اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہوئے بھی شرماتے ہیں۔إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مسلمان ہونا باعث فخر ہے،باعث شرم نہیں۔ 2 حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے طرز عمل سے اسلامی عقیدے کہ[دوستی اور دشمنی کے لیے معیار عقیدہ ہے]کا عملی ثبوت پیش کیا۔انہوں نے ابو طلحہ پر واضح کر دیا کہ وہ اپنی شان وعظمت کے باوجود مشرک ہونے کی بنا پر ان کے لیے قابل قبول نہیں۔ 3 حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے دل میں دعوت اسلام کا جذبہ کس قدر شدید تھا،کہ انہوں نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی صورت میں اپنا حق مہر چھوڑ دیا۔
Flag Counter