Maktaba Wahhabi

118 - 505
جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے]۔ آیت شریفہ کے حوالے سے چار باتیں: i: [اَلْفَاحِشَۃُ] سے مراد …جیسے کہ شیخ سعدی نے بیان کیا ہے… [اَلْأُمُوْرُ الشَّنِیْعَۃُ الْمُسْتَقْبِحَۃُ اَلْمُسْتَعْظِمَۃُ] یعنی سنگین ناپسندیدہ قبیح باتیں ہیں۔[1] ii: [عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِيْ الدُّنْیَا] کی تفسیر میں شیخ قاسمی رقم طراز ہیں: ’’أَيْ مِنَ الْحَدِّ وَغَیْرِہٖ مِمَّا یَتَّفِقُ مِنَ الْبَلَایَا الدُّنْیَوِیَّۃِ‘‘۔[2] ’’یعنی (اس سے مراد) (شرعی) حد اور اُن (کے کرتوت) کے مناسبِ حال دنیوی مصیبتیں ہیں۔‘‘ iii: جب یہ دنیوی اور اخروی بہت دردناک عذاب [بے حیائی کے پھیلنے کو پسند کرنے] پر ہے، تو اِس کی اشاعت و ترویج میں شریک ہونے، اِس کے لیے جدوجہد کرنے اور اِس کی خاطر مال خرچ کرنے پر عذاب کی سنگینی کیسی ہو گی؟ اے اللہ کریم! ہمیں اور ہمارے اہل و عیال اور ہماری نسلوں کو ایسے بدنصیب لوگوں میں شامل ہونے سے محفوظ فرمانا۔ آمین یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ۔ i v : حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں: ’’[فَاحِشَۃ] کے معنیٰ [بے حیائی] کے ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی [فَاحِشَۃ] قرار دیا ہے اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے [بے حیائی] سے تعبیر فرمایا ہے اور اِسے دنیا و آخرت میں [عَذَابٌ اَلِیْمٌ] کا باعث قرار دیا ہے، جس سے بے حیائی کے بارے میں اسلام کے مزاج کااور اللہ تعالیٰ کی منشا کا اندازہ ہوتا ہے، کہ محض بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت عنداللہ اتنا بڑا جُرم
Flag Counter