Maktaba Wahhabi

305 - 505
’’لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلَاثِ لَیَالٍ إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا۔‘‘[1] [’’اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان لانے والی خاتون کے لیے جائز نہیں، کہ وہ تین رات سے زیادہ کے لیے سوگ کرے، سوائے شوہر کے، (کہ) اُس پر چار ماہ دس دن (سوگ کرے)۔‘‘] بیٹے، والد اور بھائی سے ماں، بیٹی اور بہن کا تعلق اور ان کی نگاہوں میں اُن کی حیثیت بیان کی محتاج نہیں۔ اُن میں سے ہر ایک کی وفات کا صدمہ ایک مسلّمہ اور معلوم حقیقت ہے، جس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں، لیکن مذکورہ بالا واقعات میں ماں نے بیٹے کی وفات پر، بیٹی نے باپ کے انتقال پر اور بہن نے بھائی کی موت پر کمال صبر کا مظاہر کیا۔ فَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُنَّ وَ أَرْضَاہُنَّ۔ اے رب کریم! ہمیں اور ہماری نسلوں کو بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔ ج: چار قابلِ توجہ باتیں: اس مقام پر شاید درج ذیل چار باتوں کی جانب توجہ مبذول کرنا مناسب ہو: ۱: ہر آمدہ مصیبت پر صبر کا دائرۂ استطاعت میں ہونا: بعض لوگ کہتے ہیں، کہ ہمیں صبر کرنے کا حکم کیوں دیا گیا، جب کہ اس کا کرنا ہمارے بس ہی میں نہیں۔ علّامہ غزالی نے اس سوال کو اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
Flag Counter