Maktaba Wahhabi

310 - 505
لِکَثْرَۃِ الْمُشَقَّۃِ فِیْہِ۔‘‘[1] [’’اس سے مراد صبر کامل ہے، کہ جس میں بہت زیادہ مشقّت ہونے کے سبب، اس کا زیادہ اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے۔‘‘] iii: علامہ عینی کا بیان: ’’وَحَاصِلُ الْمَعْنٰی أَنَّ الصَّبْرَ الَّذِيْ یَکُوْنُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی ھُوَ الَّذِيْ یَکُوْنُ صَبْرًا عَلَی الْحَقِیْقَۃِ۔ وَأَمَّا السُّکُوْنُ بَعْدَ فَوَاتِ الْمُصِیْبَۃِ رُبَّمَا لَا یَکُوْنُ صَبْرًا، بَلْ قَدْ یَکُوْنُ سَلْوَۃً ، کَمَا یَقَعُ لِکَثِیْرٍ مِنْ أَھْلِ الْمَصَآئِبِ بِخِلَافِ أَوَّلِ وُقُوْعِ الْمُصِیْبَۃِ ، فَإِنَّہٗ یَصْدِمُ الْقَلْبَ بَغْتَۃً، فَلَا یَکُوْنُ السُّکُوْنُ عِنْدَ ذٰلِکَ، وَالرِّضٰی بِالْمَقْدُوْرِ إِلَّا صَبْرًا عَلَی الْحَقِیْقَۃِ۔‘‘[2] [’’اور حاصل معنیٰ یہ ہے، کہ پہلی چوٹ پر صبر ہی درحقیقت صبر ہے۔ مصیبت کے ختم ہونے پر (حاصل ہونے والا) سکون بسا اوقات صبر نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو بھولنا ہوتا ہے، جو کہ بہت سے مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ مصیبت کے آتے ہی ہونے والی بات سے مختلف (چیز) ہے جو کہ یکایک دل کو جا کے لگتی ہے۔ اس وقت سکون اور تقدیر پر راضی ہونا ہی دراصل صبر ہے۔‘‘] & امام ابن قیم کا بیان: حضرت امام اس سلسلے میں ایک اور انداز سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وَمِنْ عِلَاجِہَا أَنْ یَعْلَمَ أَنَّہٗ ، وَإِنْ بَلَغَ فِيْ الْجَزَعِ غَایَتَہٗ ، فَآخِرُ أَمْرِہٖ إِلٰی صَبْرِ الْاِضْطِرَارِ، وَہُوَ غَیْرُ مَحْمُوْدٍ وَلَا مُثَابَ۔
Flag Counter