[’’ارشادِ باری تعالیٰ: {وَ سَارِعُوْا} کی وجہ سے جلدی توبہ کرنے اور تاخیر نہ کرنے کا واجب ہونا۔‘‘]
ii: ارشادِ باری تعالیٰ:
{سَابِقُوْا إِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ}[1]
[’’اپنے رب کی بخشش اور اس کی جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو، جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی مانند ہے]۔
دو مفسرین کے اقوال:
i: علامہ رازی رقم طراز ہیں:
’’وَاعْلَمْ أَنَّہٗ تَعَالٰی أَمَرَ بِالْمُسَارَعَۃِ فِيْ قَوْلِہٖ: {وَسَارِعُوْٓا إِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ } ثُمَّ شَرَحَ ھٰھُنَا کَیْفِیَّۃَ تِلْکَ الْمُسَارَعَۃِ، فَقَالَ: سَارِعُوْا مُسَارَعَۃَ الْمُسَابِقِیْنَ لِأَقْرَانِہِمْ فِيْ الْمَضْمَارِ۔‘‘[2]
[’’جان لیجیے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشادِ تعالیٰ: {وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ} میں بہت تیزی سے دوڑ کر (مغفرت طلب کرنے کا) حکم دیا۔ پھر اس مقام پر اس [تیز دوڑنے] کی کیفیت بیان فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اس طرح دوڑ لگاؤ، جیسے کہ میدان میں اپنے ساتھیوں سے سبقت لے جانے کی خاطر باہمی مقابلہ کرنے والے دوڑتے ہیں۔‘‘
ii: شیخ جزائری آیت شریفہ سے حاصل ہونے والی ہدایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
|