ہی نہیں، بلکہ) ازراہِ نوازش عطا فرمانے والے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۱/۱۴۶)۔
ii: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ثنا کرتے ہوئے لفظ [رَبُّ] لائے ہیں، تاکہ غم کے دُور فرمانے سے مناسبت ہو جائے، کیونکہ غم کا دُور فرمانا) تربیت کا تقاضا ہے۔ اس میں [تہلیل] ہے، جو کہ توحید پر مشتمل ہے اور [عظمت] ہے، جو قدرت کاملہ پر دلالت کرتی ہے اور [حلم] جو کہ علم پر دلالت کناں ہے، کیونکہ جاہل سے نہ تو [حلم] کا تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی [کرم] کا اور یہ دونوں کسی کو عطا فرمانے کے اوصاف کی اساس ہیں۔[1]
دو محدثین کے حدیث پر تحریر کردہ عنوانات:
i: امام بخاری:
[بَابُ الدُّعَآئِ عِنْدَ الْکَرْبِ] [2]
[بے چینی کے وقت دعا کے سلسلے میں باب]۔
ii: علامہ نووی کا امام مسلم کی روایت کردہ حدیث پر عنوان:
[بَابُ دُعَآئِ الْکَرْبِ] [3]
[بے چینی کی دعا کے متعلق باب]
علامہ نووی کا حدیث اور اس دعا کے متعلق بیان:
انہوں نے لکھا ہے:
’’وَ ھُوَ حَدِیْثٌ جَلِیْلٌ یَنْبَغِيْ الْاِعْتِنَآئُ بِہٖ وَ الْإِکْثَارُ مِنْہُ عِنْدَ الْکَرْبِ وَ الْأُمُوْرِ الْعَظِیْمَۃِ۔‘‘[4]
|