Maktaba Wahhabi

471 - 505
ہے۔ ناامیدی اُس کے لیے بوجھل ہونے اور سستی کا موجب ٹھہرتی ہے۔ بندہ جن چیزوں کی امید رکھتا ہے، ان میں سے بہترین چیز اللہ تعالیٰ کا فضل، ان کا احسان، رحمت اور مدد ہے۔ (ترجمہ: کیونکہ حقیقت یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافر لوگوں کے سوا کوئی ناامید نہیں ہوتا) کیونکہ حقیقت میں وہ اپنے کفر کی بنا پر اُن کی رحمت کو بہت دُور سمجھتے ہیں اور اُن کی رحمت تو ان سے (واقعی) بہت دُور ہوتی ہے۔ پس تم (اُن کی رحمت سے مایوس ہو کر) کافروں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔ یہ (آیتِ شریفہ) اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے، کہ بندے کی اللہ تعالیٰ کی رحمت و نصرت سے امید اس کے ایمان کے بقدر ہوتی ہے۔‘‘ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، کہ مصیبت میں مبتلا شخص پر لازم ہے، کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کی رحمت و نصرت سے ناامید نہ ہو۔ اِس کی بجائے اُن کے فضل کی امید رکھے۔ اُن کے جود و کرم کی آس لگائے رکھے۔ وہ اپنے رب کریم کے بارے میں اچھا گمان رکھے، کیونکہ وہ اپنے بندے کے ساتھ اُس کے اُن کے بارے میں گمان کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔ رب کریم نے خود اس حقیقت کی خبر دی ہے: ’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ۔‘‘[1] [میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوں]۔‘‘ مبحث چہارم مصیبتوں کے چلے جانے کے بعد کرنے کے کام
Flag Counter