Maktaba Wahhabi

167 - 191
۸۔ دعوت میں سابقہ ثابت شدہ واقعات سے استشہاد و استدلال ۵۔صدیقِ اکبر کا بوقتِ موت بیٹی رضی اللہ عنہما کا احتساب: امام ابن سعد نے ابوبکر بن حفص بن عمر کے حوالے سے روایت نقل کی،(کہ)انہوں نے بیان کیا: ’’جَآئَ تْ عِائِشَۃُ إِلٰی أَبِيْ بَکْرٍ رضی اللّٰه عنہما وَ ہُوَ یُعَالِجُ مَا یُعَالِجُ الْمَیِّتُ،وَ نَفْسُہٗ فِيْ صَدْرِہٖ،فَتَمَثَّلَتْ ہٰذَا الْبَیْتَ: لَعَمْرُکَ مَا یُغْنِيْ الثَّرَآئُ عَنِ الْفَتٰی إِذَا حَشْرَجَتْ یَوْمًا وَ ضَاقَ بِہَا الصَّدْرُ عائشۃ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی اور وہ وہی کچھ جھیل رہے تھے،جو مرنے والا جھیلتا ہے۔اُن کا سانس اُن کے سینے میں تھا(یعنی اُن کی روح اُن کے مبارک جسم سے نکلنے کے قریب ہی تھی)،تو انہوں(حضرت عائشہ)نے اراہِ تمثیل(یعنی بطور مثال حسبِ ذیل)شعر پڑھا: [ترجمہ:’’آپ کی زندگی کی قسم! جب کسی دن نوجوان کا سانس گلے میں اٹک جائے اور اس کے ساتھ سینہ تنگ ہو جائے،تو تونگری اُس کے کسی کام نہیں آتی۔‘‘] فَنَظَرَ إِلَیْہَا کَالْغَضْبَان،ثُمَّ قَالَ:’’لَیْسَ کَذَاکَ یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! وَ لٰکِنْ ﴿وَ جَائَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ﴾۔[1] اُنہوں نے ان کی طرف ناراض ہونے والے شخص کی مانند دیکھا۔پھر فرمایا: ’’اے ام المؤمنین! لیکن:[2]
Flag Counter