Maktaba Wahhabi

67 - 191
قاضی ابو سعود کا بیان: مذکورہ بالا باتوں کے ذکر کرنے کے بعد قاضی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وَ کُلُّ ذٰلِکَ لِکَمَالِ عِنَایَتِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامُ بِتَحْقِیْقِ مَا یَتَوَخَّاہُ مِنْ نَّجَاۃِ اِبْنِہٖ بِبَیَانِ شَانِ الدَّاہِیَۃِ،وَ قَطْعِ أَطْمَاعِہِ الْفَارِغَۃِ،وَ صَرْفِہٖ عَنِ التَّعَلُّلِ بِمَا لَا یُغْنِيْ عَنْہُ شَیْئًا،وَ إِرْشَادِہٖ إِلَی الْعَیَاذِ بِالْمَعَاذِ الْحَقِّ عَزَّ حِمَاہُ۔‘‘[1] [’’ان علیہ السلام کا یہ سب کچھ(کہنا،بیان کرنا)بیٹے کی نجات کے مقصد کے حصول کی خاطر،اُن کی غایت درجے کی توجہ اور اہتمام(کا نتیجہ)تھا۔انہوں نے آنے والی بہت بڑی آفت کی سنگینی کو بیان فرمایا۔ اس(یعنی بیٹے)کی بے کار امیدوں کا قلع قمع کیا،اسے فضول اور لایعنی حیلہ سازی سے دُور کیا اور اسے حقیقی پناہ دینے والے …کہ ان کی پناہ بلند و بالا ہے… کی پناہ میں آنے کی راہ دکھائی‘‘]۔ آٹھ دیگر فوائد: ۱۔ کشتی میں دعوت دینا ۲۔ حقیقی تعلق کا دین کی وجہ سے ہونا ۳۔ حسب و نسب کی بلندی سے نافرمانوں کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہونا ۴۔ اہلِ ایمان کا قلیل ہونا ۵۔ کثرت و قلت کا حق و باطل کے پہچاننے کے لیے معیار نہ ہونا ۶۔ دعوت کے قبول اور عدمِ قبول کا داعی کے اخلاص اور عمدہ اسلوب کے لیے کسوٹی نہ ہونا
Flag Counter