Maktaba Wahhabi

98 - 110
بن کر بیٹھے اور علمی جلسوں کے صدر الصدور رہے۔ یہ ایک غریب طالب علم کا علمی اعجاز ہے،جسے چھے ماہ تک چھے آنے میسر نہیں ہو سکے تھے۔اﷲ تعالیٰ مولانا کی پر نور قبر کو انوارِ رحمت سے اور زیادہ جگمگائے اور ان کو ہر طرح سے قبر کی منزل میں آرام پہنچائے۔ مصر سے کئی کتابیں چھپی ہیں،جن سے ایسے تمام غریبوں،فقیروں اور مسکینوں کا حال بیان کیا گیا ہے جو آگے چل کر آسمانِ علم کے آفتاب و ماہتاب بنے اور اپنی محنت و لگن کی بدولت دنیا کے بڑے بڑے نامور علما میں ان کا شمار ہوا،علمی جلالت و فقاہت میں اور بحث و تحقیق میں ان کا بلند مقام رہا۔ بہرحال غربت و مسکینی علمی مدارج و مراتب کے حاصل کرنے میں کبھی حارج و مانع نہیں ہوئی ہے۔ہمارے جو طلبا یا اہلِ علم فقر و فاقہ میں مبتلا ہیں،انھیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم علم کے اعلیٰ مقام تک اپنی اس غریبی میں کیسے پہنچ سکتے ہیں ؟ ایک حالیہ مثال سے آپ اپنے دل و دماغ کو روشن کیجیے۔ مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی کی غربت اور ان کی ذہانت و فطانت یہی مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی ہیں،جنھوں نے نئی دہلی میں مدرسے کی پانچ منزلہ پر شکوہ عمارت تعمیر کرائی ہے۔معہد التعلیم الاسلامی قائم کیا اور مرکز ابو الکلام آزاد کے تحت نرسری سکول بھی کھولا،حفظِ قرآن کا شعبہ قائم کیا اور جتنے اہلِ حدیث مدارس اور مرکزی دالعلوم وغیرہ ہیں،ان سب کے بالمقابل بہت اعلیٰ و ارفع عظیم المرتبت،وسیع ترین لائبریری قائم کی،اس طرح جماعت اہلِ حدیث کی پوری لاج رکھ لی اور امورِ خیریہ میں عوامی شفاخانہ کا بھی انتظام
Flag Counter