منافقین میں سے بعض ایسے تھے جو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ کے لیے نکلے تو وہ پیچھے رہ گئے اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بیٹھ جانے سے خوش ہوئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کی اور قسم اٹھائی اور انہوں نے اس بات کو پسند کیا کہ ان کی تعریف کی جائے اس کام پر جو انہوں نے سر انجام نہیں دیے تو آیت نازل ہوئی:
﴿ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ (آل عمران: ۱۸۸)
’’ ان لوگوں کو ہر گز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انھوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے، پس تو انھیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہر گز خیال نہ کر اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘[1]
۱۷۔ نیک اعمال میں عیب نکالنا:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ ﴾ (التوبۃ: ۵۸)
’’اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تجھ پر صدقات کے بارے میں طعن کرتے ہیں، پھر اگر انھیں ان میں سے دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انھیں ان میں سے نہ دیا جائے تو اسی وقت وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ان منافقین میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کہ صدقات کی تقسیم کے بارے میں؛جب آپ انھیں تقسیم کرتے ہیں تو آپ پر عیب اور تہمتیں لگاتے
|