Maktaba Wahhabi

103 - 566
ان کی عیب جوئی اور الزام تراشی سے کوئی بھی انسان کسی بھی حال میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہاں تک کہ صدقہ کرنے والے بھی ان سے نہ بچ سکے۔اگر ان میں سے کوئی بہت زیادہ مال لے کر آتا تو کہتے کہ یہ دکھلاوا کررہا ہے، اور اگر کوئی تھوڑا مال لانے والا ہوتا تو کہتے: ’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس کے صدقہ سے غنی اور بے نیاز ہے۔ ‘‘[1] ۱۸۔ نچلے درجہ پر راضی رہنا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ ﴾ (التوبۃ:۸۶) ’’ جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لا اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان میں سے دولت مندوں کا ایک طبقہ آپ کے پاس آکر یہ کہہ کر رخصت لے لیتا ہے کہ ہمیں تو بیٹھے رہنے والوں میں ہی چھوڑ دیجئے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ قدرت اور وسعت کے باوجود جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کی مذمت کرتے ہوئے اور ان کی سزا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہی لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ ’’ ہمیں چھوڑ دیجیے ! تاکہ ہم پیچھے رہنے والوں کے ساتھ رہ جائیں، اور وہ اپنے لیے اس عار اورعورتوں کے ساتھ بیٹھے رہنے پر راضی ہوگئے۔ لشکر نکلنے کے بعد تو پیچھے رہ جانے والی عورتیں ہی تھیں، اور جب جنگ واقع ہوجائے تو یہ لوگوں میں سب سے زیادہ بزدل ثابت ہوتے ہیں اور امن کے حالات میں باتیں کرنے میں لوگوں میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ ایک دوسری آیت میں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ
Flag Counter