Maktaba Wahhabi

149 - 566
بیج بوتے ہیں۔ ایک ماں نے اپنے چھوٹے سے بچے کو اس قسم کی گیم کھیلنے سے روکنا چاہا، تو بچہ چلا چلا کر کہنے لگا: ’’ مجھے یہ گیم کھیلنے دو ، بس آئندہ کے لیے میں گرجا گھر میں داخل نہیں ہوں گا۔ ‘‘ ماں کے لیے یہ چیز انتہائی عجیب تھی کہ اس گیم کا گرجا گھر سے کیا تعلق؟ یہ بات ماں کی توقع کے خلاف تھی؛ وہ اس کی ٹوہ میں لگ گئی۔ آخر کار ظاہر یہ ہوا کہ جب یہ کھیل کھیلنے والے سے کمزوری ظاہر ہوتی ہے ،یا وہ اپنے ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکتا تو اسے گرجا گھر میں داخل ہونا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کو تقویت پہنچائے اور تازہ دم ہوکرجیتنے کے جذبہ سے کھیلے اور اسے پھر سے عافیت حاصل ہو، اور اس طرح کھلاڑی اپنے کھیل کو جاری رکھ سکتا ہے۔ کیا اب یہ ساری چیزیں دیکھنے اور سننے کے بعد بھی ہم ان چیزوں کو معمولی سمجھ کر ان سے لا پرواہی برتیں گے؟ کہ یہ لوگ گیمزکے ذریعہ ہماری اولادوں کو ایسی تربیت دیتے رہیں؟ ان گیمز کی وجہ سے مسلسل کتنی نمازیں ضائع ہوجاتی ہیں؟ زندگی کا کتنا ہی بڑا حصہ اور کتنا ہی قیمتی وقت اللہ تعالیٰ کی یاد ،اس کی اطاعت سے غفلت میں گزرتے ہیں؟ کیا ان گیمز کی وجہ سے ہمارے بچے قرآن حفظ کرنے سے دور نہیں ہورہے؟ کیا یہ گیمز بچوں کو والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک سے دور نہیں کر رہے؟ صرف یہی نہیں بلکہ ان گیمز نے ان بچوں کو دو وقت کا کھانا بھی بھلادیا ہے جس سے ان کی صحت اور تربیت کیسے سلامت رہ سکتی ہے!! ۷۔ نعمت کوشی و آسائش: ہمارے اس دور میں نعمت کوشی اور آسائش پرستی ایک فن اور آرٹ بن گیا ہے۔ اس وجہ سے لوگ بہت بڑی غفلت کا شکار ہورہے ہیں۔ اس لیے کہ آسائش پرستی کے ضمن میں کئی قسم کے سیاحتی سفر بھی ہوتے ہیں، اور بڑے
Flag Counter