Maktaba Wahhabi

173 - 566
۵۔ دنیا کے حال پر تدبر اور غورو فکر: اس لیے کہ جو انسان دنیا کے حال پر تدبر کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی خوشیاں میل کچیل کے مشابہ ہیں، اور اس کی لذتیں بہت جلد ختم ہونے والی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان عزت و شرف ، فراغت اور آسائش کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے کہ اچانک پریشانیاں اس پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔شقاوت و بدبختی اس کے گھر میں ڈیرے ڈال دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کل کا غنی و مال دار آج کا فقیر و تنگ دست ہوجاتا ہے، اور کل کا عزت وشرف والا آج ذلیل و رسوا ہوکر رہ جاتا ہے۔ جب موت آتی ہے تو لوگوں کے کندھوں پر اٹھائے ہوئے گھر سے نکلتا ہے۔ پھر اسے مٹی میں اس کے انجام کے لیے چھوڑ دیا جاتاہے۔ دنیا کے اس کثرت کے ساتھ فناکرنے اور فنا ہونے پر کوئی عیب نہیں لگایا جاسکتا، اور نہ ہی اس کے احوال کے بدلنے کو ملامت کی جاسکتی ہے۔ یہ حالات تو اس دنیا کے ختم ہونے اور زائل ہوجانے پر سب سے واضح دلائل ہیں۔ یہاں صحت بیماری سے بدل جاتی ہے، وجود ختم ہوکر عدم کا شکار ہوجاتا ہے، نوجوانی کو بڑھاپا آگھیرتا ہے اور نعمتیں زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ زندگی کو موت گھیرلیتی ہے ، عمارتیں اور بستیاں ویران ہوجاتی ہیں، اور یہاں پر جمع ہونے والے متفرق ہوجاتے ہیں۔ ہند بنت نعمان کہتی ہے: ’’ میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ ہم لوگوں میں سب سے عزت والے تھے ، اور ہمارا ملک سب سے مضبوط تھا۔ ہمارے ملک میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ میں نے دیکھا: ہم لوگوں میں سب سے کم تعداد میں ہیں۔… کسی آدمی نے پوچھا کہ وہ اپنا قصہ بیان کریں کہ ایسے کیوں اور کیسے ہوگیا؟ تو وہ کہنے لگی: ایک وقت تھا کہ عرب میں کوئی ایک ایسا نہیں تھا جو ہم سے
Flag Counter