Maktaba Wahhabi

194 - 566
۳۔ امانتوں کا واپس کردینا حالانکہ اسے ان کی ضرورت ہو۔ یہ تین باتیں ایسی ہیں کہ ان کا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان امور کو بجالانے والے کے دل میں ایمان اور دین کا وافر حصہ موجود ہے۔ اس لیے کہ ایسا انسان اپنے سامنے حرام پاتا ہے ، مگر اسے اللہ کی رضامندی کے لیے ترک کردیتا ہے، اور اپنے نفس کو زبردستی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں لگائے رکھتا ہے حالانکہ دل اس سے منافرت رکھتا ہے اور اپنی ضرورت کے باوجود اہل امانت کو ان کی امانتیں واپس کرتا ہے۔ ۲۔ برے ساتھی: سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلرَّجُلُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ، فَلْیَنْظُرْ اَحَدُکُمْ مَنْ یُّخَالِلُ۔)) [1] ’’ انسان اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے، پس چاہیے کہ وہ دیکھے کس سے دوستی لگا رہا ہے۔ ‘‘ بہت سارے گناہ ایسے ہیں جن کے ارتکاب کا سبب برے دوست ہی بنتے ہیں۔ ایک سترہ سالہ نوجوان اپنے گناہ میں مبتلا ہونے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ میں نے پہلی بار حرام فلم اس وقت دیکھی جب میں اپنے ایک دوست سے ملاقات کے لیے گیا ہوا تھا۔ جب ہم دونوں کمرے میں تھے تو اس نے ایک فلم لگا دی۔ میں نے اس کے ساتھ یہ فلم دیکھی، اور یہی میری ابتدا تھی۔ ‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ نے بے ہودہ گوئی کو حرام ٹھہرایا ہے ، اور فحاشی سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا ﴾ (النساء:۱۴۸) ’’برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت
Flag Counter