Maktaba Wahhabi

198 - 566
پہلا قاعدہ:… ’’معاذ اللہ‘‘ کہنا: اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کا خوف گناہ کے ارتکاب سے امن کا قلعہ ہے۔اور ایمان انسان کو گناہ اورحرام کاری کے ارتکاب اور شہوات کے اتباع سے بچالیتا ہے۔ ’’معاذ اللہ ‘‘ ایسا کلمہ ہے جو کہ سیّدنا یوسف علیہ السلام نے کہا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں بچا لیا، اور انھیں عورتوں کے مکر و فریب سے محفوظ رکھا۔ یہ کلمہ وہ لوگ بھی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے جگہ پائیں گے؛ اس دن جب کہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہیں ہوگا۔ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ وَمِنْہُمْ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأۃٌ ذَاتُ مَنْصَبٍ وَجَمَالٍ ، فَقَالَ: إِنِّيْ أَخَافُ اللّٰہَ۔)) (متفق علیہ) ’’سات آدمی ایسے ہوں گے جن کو روزِ قیامت اللہ اپنے سائے میں جگہ دے گا، … اور وہ آدمی جس کو کسی بڑے منصب والی اور خوبصورت عورت نے برائی کی دعوت دی ، مگر اس نے کہا: میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ظاہر یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے یہ کلمہ [معاذ اللہ ]کہے ؛ تاکہ اسے بھی گناہ سے روکے، یہ کلمہ اپنے دل میں کہے۔‘‘ اس حال میں دل و زبان کو قابو میں رکھنا بہت بڑی چیزہے، اور اس کے اثرات بھی بہت بڑے ہوتے ہیں۔ اس جیسے کلمات (مَعَاذَ اللّٰہِ یعنی میں اللہ کی پناہ مانگتاہوں ؛ أَخَافُ اللّٰہِ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہوں ) اس جیسے مواقع پر صرف ان لوگوں کی زبان سے نکلتے ہیں جو اپنے اوپر اللہ کو نگہبان سمجھتے ہیں، اور جس کا سر و اعلانیہ (ظاہر و باطن ) برابر ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے تنہائی میں بھی ایسے ہی ڈرتا ہے جیسے اعلانیہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ جب مومن کی تربیت اللہ تعالیٰ کی نگہبانی پر ہوتی ہے ، ا ور وہ واقع الحال میں اسماء اللہ الحسنٰی کے اثرات کا مطالعہ کرتا ہے، تو وہ ان شہوات کے سامنے ثابت قدم رہتا ہے، اور وہ
Flag Counter