Maktaba Wahhabi

258 - 566
تو اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ اسے غضبناک کرے ، یا اس کی نافرمانی کرے ، یا پھر اس کے حکم کی مخالفت کرے۔ اس لیے کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی کوئی توقیر و تعظیم نہیں ہے۔ [جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]: ﴿ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ (الزمر:۶۷) ’’اور ان لوگوں کو جیسی قدر اللہ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔‘‘ ۴۔ خواہش کی تکمیل میں دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا: لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے میں کمی کوتاہی اورتقصیر کی وجہ سے اہل ھواء [خواہشات کے پجاری ] لوگوں کو اپنی خواہشات پرستی میں سرکشی اور بغاوت کرنے کا موقع مل جاتاہے اور وہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں بلا کسی روک ٹوک کے لگا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ چیزیں اس کے دل میں گھر کر لیتی ہیں، اور اس کے سلوک و برتاؤ پر پوری طرح غلبہ پالیتی ہیں۔ اسی لیے اسلام کی تعلیمات میں اہم ترین چیز نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (آل عمران:۱۰۴) ’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح اور نجات
Flag Counter