آپ لوگوں کو دیکھتے ہیں گویا کہ وہ اسی فطرت پر پیدا کیے گئے ہوں۔ ‘‘[1]
۸۔ امور ولایت نبھانے کی توفیق نہ ہونا:
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ جو حکومت طلب کرکے دنیاوی جاہ و منصب (کرسی )کے حصول کی حرص کرتا ہے ، اور پھر اسے یہ ذمہ داری نبھانے کی توفیق بھی مل جائے۔ بلکہ ایسے انسان کو اس کے نفس کے سپرد کردیا جاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
سیّدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:
’’اے عبدالرحمن! امارت کا سوال مت کرنا کیونکہ اگر تجھے تیرے سوال کے بعد یہ عطا کر دی گئی تو تم اس کے سپرد کر دیے جاؤ گے اور اگر یہ تجھے مانگے بغیر عطا کی گئی تو تیری اس معاملہ میں مدد کی جائے گی۔‘‘[2]
سیّدنا یزید بن عبد اللہ بن موہب ایک نیک انسان اور عادل قاضی تھے اور کہا کرتے تھے جو انسان مال و شرف سے محبت کرے اور ان کے چھن جانے کا خوف بھی کرتا ہو تو وہ ان میں عدل نہیں کرسکتا۔
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عنقریب تم امارت(حکومت) کے حریص ہوں گے اور قیامت کے دن تمہیں ندامت ہوگی، پس دودھ پلانے والی اچھی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری ہے۔‘‘[3]
۹۔ کفار اور مشرکین سے دوستی:
یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ اندلس کے بادشاہ ایسے کرتے تھے (یعنی کفار اور مشرکین سے دوستی رکھتے تھے ، جس کا انجام سب کے سامنے ہے)، اور ایسے ہی اس
|