Maktaba Wahhabi

335 - 566
’’اے ابوذر! میں تجھے ضعیف وناتواں خیال کرتا ہوں اور میں تیرے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ بننا اور نہ مال یتیم کا والی بننا۔‘‘[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کو امارت اور ولایت سے منع کر دیا۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا تھا کہ ابو ذر کمزور آدمی ہیں۔ حالانکہ روایت میں آتا ہے کہ نہ ہی سبزے نے کسی پر سایہ کیا ہوگا اور نہ ہی زمین نے کسی ایسے آدمی کو اٹھایا ہوگا جو اپنے لہجہ میں ابو ذر سے بڑھ کر سچا ہو۔‘‘[2] دوسرا موقع:… حکومت یا ولایت مل جانے کے بعد ان سے مشورہ کیا جائے تاکہ صرف آمریت نہ رہے، اور اس لیے بھی کہ مشورہ کرنے سے رائے میں وزن اور پختگی آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ﴾ (آل عمران: ۱۵۹) ’’ کام کا مشورہ ان سے کیا کریں۔ ‘‘ ۴۔ حکومت کے برے انجام پر غور و فکر: سیّدنا ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قوموں کے سردار (بڑے) ان میں سب سے زیادہ پریشانیوں والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے غم ہمیشہ ہمیشہ رہتے ہیں اور ان کے دل سب سے زیادہ مشغول رہتے ہیں، ان کے عیوب بڑے مشہور ہوتے ہیں۔ ان کی دشمنیاں بکثرت ہوتی ہیں، اور ان کا حزن ان سب سے سخت ہوتا ہے، اور بہادروں میں ان کی بزدلی بڑی ہی سخت ہوتی ہے، اور قیامت کے دن ان کا حساب بھی بہت
Flag Counter