Maktaba Wahhabi

424 - 566
آیا تو آپ فرمانے لگے: ’’ اے موت ! اے غائبانہ زائر ! تجھے خوش آمدید۔ ایسا حبیب جوکہ فاقہ کی حالت میں آیا ہے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے ڈرتا تھا، اور آج تیری رحمت کی امید لگائے ہوں۔ اے اللہ ! تو جانتا ہے میں دنیا کو اور اس میں دیر تک باقی رہنے کو اس لیے نہیں پسند کرتا تھا کہ میں یہاں نہریں بہاؤں یا درخت لگاؤں۔ لیکن اس لیے تاکہ سخت گرم دوپہر کی پیاس برداشت کروں ، اور وقت کی سختیاں برداشت کروں اور علم کے حلقات میں علمائے کرام کی مجلس میں شرکت کروں۔‘‘[1] بعض تابعین کا دنیا کے متعلق موقف: راوی بیان کرتا ہے: ہم مالک بن دینار کے پاس اس بیماری میں گئے جس میں ان کا انتقال ہوا ؛ آپ جان کنی کے عالم میں تھے۔ آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: ’’ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں دنیا میں صرف پیٹ اور شرمگاہ کی وجہ سے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔‘‘ [2] بلکہ مقصد تیری رضامندی کا حصول تھا۔ ابو مسلم الخولانی مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے ایک گروہ کی طرف دیکھا جو اجتماع کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے یہ امید لگائی کہ یہ لوگ ذکر کررہے ہوں ، اور خیر کی باتوں میں مشغول ہوں گے۔ وہ بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ پس ناگہاں اس نے سنا کہ کوئی کہہ رہا تھا: ’’ میرا غلام آیا ؛ اور اس نے ایسے ایسے کیا …‘‘ ایک دوسرا بولا اور اس نے کہا: ’’ میں نے اپنے غلام کو تیار کیا ہے ‘‘ [ابو مسلم نے] ان لوگوں کی جانب دیکھا اور کہا: ’’ سبحان اللہ ! اے لوگو ! تم جانتے ہو کہ میری اور تمہاری مثال کیسے ہے؟ اس انسان کی مثال ہے جسے خوب موسلا دھار بارش پہنچی ہو۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو اسے دو بڑے کواڑ
Flag Counter