Maktaba Wahhabi

435 - 566
حرص رکھتے ہیں، اور اس کے جمع کرنے میں کتنی بڑی مشقت اور تھکاوٹ برداشت کرتے ہیں، اورانواع و اقسام کی تکالیف اٹھاتے ہیں۔ آپ اس آدمی سے بڑھ کر زیادہ تھکا ہوا کسی کو نہیں پائیں گے جس انسان کی تمام تر سوچ وفکر دنیا کا کمانا ہو۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں سے دنیا حاصل کرنے کا حریص ہوتا ہے، اور یہاں اس آیت میں عذاب سے مراد دکھ و تکلیف ، تھکاوٹ اور مشقت ہے۔ ‘‘[1] ۴۔ دل کی آخرت سے غفلت اورعمل میں کمی: سیّدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نے دنیا سے محبت کی تو[یہ محبت ]اس کی آخرت کے لیے نقصان دہ ہوگی، اور جس نے آخرت سے محبت کی اس کے لیے دنیا تکلیف دہ ہوگی۔ پس چاہیے کہ تم باقی رہ جانے والی چیز کو فنا ہونے والی چیز پر ترجیح دو۔‘‘[2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اللہ فرماتے ہیں: ﴿ قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ (10) الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ سَاهُونَ ﴾’’بے سند باتیں کرنے والے غارت کر دیئے گئے۔جو غفلت میں ہیں اور بھولے ہوئے ہیں۔‘‘(الذاریات ۱۰۔۱۱) (ساہون): یعنی آخرت کے معاملہ سے غافل ہیں، وہ اسے بھولے ہوئے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی محبت اور اس کے سازو سامان نے ان کے دل کو ڈھانپ لیا ہے، اوروہ اس چیز سے غافل ہوگئے ہیں جس مقصد کے لیے انھیں پیداکیاگیاہے، اور اپنی آخرت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے ہیں۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مشابہ ہے: ﴿ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ﴾ (الکہف:۲۸)
Flag Counter